Maktaba Wahhabi

55 - 331
نہ دے۔ایک روایت میں یہ الفاظ ہیں کہ جس شخص نے اپنے گلے میں تعویذ لٹکایا اس نے شرک کیا۔ تمیمہ اس چمڑے کے پرزے کو کہتے ہیں جس پر کوئی چیز لکھی گئی ہو۔اہل عرب اس نیت سے لٹکاتے تھے کہ اس سے آفات سے بچاؤ ہو سکے۔یہ سراسر جہالت اور ضلالت کی بات ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ کے سوا نہ کوئی تکلیف دُور کرسکتا ہے اور نہ روک سکتا ہے۔تمیمہ کو عرب لوگ اپنے بچوں کے گلے میں ڈالتے تھے تاکہ وہ نظر بد سے محفوظ رہیں لیکن اسلام نے اس کو باطل قرار دیا۔ ولا بن ابی حاتم عن حذیفۃ رضی اللّٰه عنہ اَنَّہٗ رَاٰی رَجُلًا فِیْ یَدِہٖ خَیْطٌ مِنَ الْحُمّٰی فَقَطَعَہٗ سیدنا ابن بی حاتم رضی اللہ عنہ نے سیدنا حذیفہ رضی اللہ عنہ سے بیان کیا کہ انہوں نے ایک شخص کے ہاتھ میں بخار کی وجہ سے دھاگہ دم کیا ہوا دیکھا تو سیدنا حذیفہ رضی اللہ عنہ نے اسے کاٹ دیا۔ سیدنا وکیع رضی اللہ عنہ نے سیدنا حذیفہ رضی اللہ عنہ سے مندرجہ ذیل حدیث روایت کی ہے:سیدنا حذیفہ رضی اللہ عنہ ایک مریض کی بیمار پرسی کے لئے تشریف لے گئے۔اس کے بازو کو چھوا تو معلوم ہوا کہ اس پر کوئی دھاگہ بندھا ہوا ہے۔پوچھا کہ یہ کیا ہے؟ مریض بولا کسی نے مجھے یہ دھاگا دم کرکے دیاہے۔سیدنا حذیفہ رضی اللہ عنہ نے اُسے کاٹ دیا اور فرمایا کہ اگر تو اسے پہنے ہوئے فوت ہو جاتا تو میں تیری نمازِ جنازہ نہ پڑھتا۔اور پھر قرآن کریم کی یہ تلاوت فرمائی کہ:(ترجمہ)’’ان میں سے اکثر اللہ کو مانتے تو ہیں مگر اس طرح کہ اس کے ساتھ دوسروں کو شریک ٹھہراتے ہیں۔‘‘(یوسف:۱۰۶)۔ اس حدیث سے ثابت ہوا کہ اس قسم کے تعویذ گنڈے قطعاً ممنوع ہیں اگرچہ ان کا پہننے والا یہ خیال کرتا ہو کہ یہ صرف اسباب ہیں،حقیقتاً اللہ تعالیٰ ہی دافع البلیات ہے اور وہی مشکلات کو دور کرنے والا ہے۔اسباب بھی وہی اختیار کرنے چاہئیں جن کا شریعت اسلامیہ میں کوئی وجود ہو اور تعویذ دھاگے اور صدف وغیرہ تو جاہلیت کی رسمیں ہیں اور ان کا پہننا شرک ہے اگرچہ انسان ان کو نافع اور ضار نہ بھی خیال کرے۔اس قسم کے اعمال کی برائی سے لوگوں کو آگاہ کرنا چاہئے اور اگر ہو سکے تو ہاتھ سے روک دے ورنہ زبان سے تو اس کے خلاف جہاد ضروری ہے۔اس قسم کے شرکیہ تعویذات کو بزور بازو اتارپھینکنا چاہئے اگر چہ پہننے والا اس کی اجازت نہ دے۔ فیہ مسائل
Flag Counter