Maktaba Wahhabi

61 - 331
حالت میں ہے،اس کے بال بکھرے ہوئے ہیں اور مٹی سر پر ڈال رہی ہے،سیدنا خالد رضی اللہ عنہ نے تلوار کے ایک ہی وار سے اس کا کام تمام کردیا اور واپس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوکر یہ سارا قصہ بیان کیا۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ وہی عورت عُزّٰی تھی۔‘‘ یہی صورتِ حال یا اس سے بڑھ کر آج کل اولیاء کی قبروں اور مزاروں پر دکھائی دیتی ہے۔ مناۃ:یہ بت مکۃ المکرمہ اور مدینہ منورہ کے درمیان واقع تھا۔’’فتح مکہ کے سال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو اس کے گرانے کے لئے بھیجا چنانچہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے اس کو منہدم کردیا۔‘‘ آیا ت کی باب سے مطابقت لات و مناۃ کے پجاری ان کی عزت و توقیر کرتے تھے اور یہ اعتقاد رکھتے تھے کہ ان کے پاس آکر جانوروں کو ذبح کرنا باعث برکت ہے۔ان کے پاس آکر دعائیں مانگتے اور ان سے امداد چاہتے تھے۔اپنی حوائج کی تکمیل کے لئے ان پر اعتماد اور بھروسہ کرتے تھے،ان سے سفارش اور برکت کی اُمیدیں رکھتے تھے۔یہ تھا مشرکین عرب کا عقیدہ۔ پس صالحین کی قبروں پر جاکر تبرک حاصل کرنا جس طرح کہ لات کے پجاری کرتے تھے یا درختوں اور پتھروں سے برکت حاصل کرنا جیسے عُزّٰی اور مناۃ کے پرستاروں کا شیوہ تھا،یکساں نوعیت کا شرک ہے۔لہٰذا جو شخص اس دور میں صلحاء کی قبروں سے اسی طرح کی توقعات رکھتا ہے یا کسی درخت اور پتھر کی توقیر کرتا ہے اور اس سے مدد کا طالب ہوتا ہے اس نے بھی گویا مشرکین عرب جیسا فعل کیا۔یہی نہیں بلکہ اس زمانے کے مسلمان اس سلسلے میں تو مشرکین عرب سے کہیں آگے بڑھ گئے ہیں۔ عَنْ اَبِیْ وَاقِد اللَّیْثی رضی اللّٰه عنہ قَالَ خَرَجْنَا مَعَ رَسُوْلِ اللّٰه صلی اللّٰه علیہ وسلم اِلٰی حُنَیْنٍ وَنَحْنُ حُدَثَائُ عَھْدٍ بِکُفْرٍ وَ لِلْمُشْرِکِیْنَ سِدْرَۃٌ یَّعْکُفُوْنَ عِنْدَھَا وَ یَنُوْطُوْنَ بِھَا اَسْلِحَتَھُمْ یُقَالُ لَھَا ذَاتُ اَنْوَاط فَمَرَرْنَا بِسِدْرَۃٍ فَقُلْنَا یَارَسُوْلَ اللّٰه اِجْعَلْ لَنَا ذَاتَ اَنْوَاطٍ کَمَا لَھُمْ ذَاتَ اَنْوَاطٍ فَقَالَ رَسُوْلُ اللّٰه صلی اللّٰه علیہ وسلم اللّٰه اَکْبَرُ اَنَّھَا السَّنَنُ قُلْتُمْ وَالَّذیْ نَفْسِیْ بِیَدِہٖ کَمَا قَالَتْ بَنُوْ اِسْرَائِیْلَ لِمُوْسٰی اِجْعَلْ لَّنَآ اِلٰھًا کَمَا لَھُمْ اٰلِھٰۃٌ قَالَ اِنَکُمْ قَوْمٌ تَجْھَلُوْنَ لَتَرْ کَبُنَّ سُنَنَ مَنْ کَا نَ قَبْلَکُمْ سیدنا ابو واقد لیثی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ہم جنگ حنین کے موقع پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مقام حنین کی طرف جارہے تھے۔اور ہمارا زمانہ کفر ابھی نیا نیا گزرا تھا۔راستے میں ایک جگہ بیری کا درخت آیا جس کوذات انواط کہا جاتا تھا۔مشرکین اس درخت کے پاس بیٹھنا باعث برکت خیال کرتے تھے اور اپنے ہتھیار بھی برکت
Flag Counter