Maktaba Wahhabi

102 - 256
’’اے عیسیٰ ابن مریم! کیا تیرا رب آسمان سے ہمارے لیے مائدہ (دسترخواں) اتار سکتا ہے؟‘‘[1] اللہ تعالیٰ نے امت محمدیہ کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا نام لے کر پکارنے سے منع فرمایا۔ سورئہ نور میں ہے: ’’جیسے تم آپس میں ایک دوسرے کو پکارتے ہو، پیغمبر کو یوں نہ پکارا کرو۔‘‘[2] تفسیر در منثور میں ہے کہ ابو نعیم عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما اس آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ یہ آیت اترنے سے پہلے لوگ نبی علیہ السلام کو ’’یامحمد!‘‘ یا ’’اباالقاسم‘‘کہہ کر پکارتے تھے، اس آیت کے اترنے کے بعد صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم آپ کو ’’یا نبی اللہ‘‘ اور ’’یا رسول اللہ‘‘ کہہ کر پکارنے لگے۔ غور کیجیے کہ شریعت محمدیہ صلی اللہ علیہ وسلم میں جیسے توحید کا تصور آخری ارتقائی منازل سے گزرا اور ہر اعتبار سے بے داغ، صاف ستھرا اور جامع ہوگیا اور شرک کی تمام راہوں اور تمام وسائل و ذرائع کو بند کردینے کے لیے وہ تمام اقوال و اعمال جو شرک تک پہنچانے والے ہوسکتے تھے، ناجائز قراردیے گئے، اسی طرح انبیاء اور اہل اللہ کا ادب بھی آخری ارتقائی منازل سے گزرا۔ بارگاہِ رسالت کے آداب بھی نکھرے، تہذیب و شائستگی اور احترام کی کئی لطافتوں اور باریکیوں کو ملحوظ رکھنے کی تلقین کی گئی۔ اگر اللہ یہ چاہتا ہے کہ اس کے حبیب کو نام لے کر نہ پکارا جائے تو اس کی یہ مشیت عدل اور انصاف پر مبنی ہے۔ جب وہ خود رب ہوکر انھیں نام لے کر خطاب نہیں کرتا تو بندوں کو کیا حق حاصل ہے کہ انھیں نام لے کر پکاریں۔ اللہ نے قرآن مجید میں تمام انبیاء
Flag Counter