Maktaba Wahhabi

116 - 256
عَلٰی خَیْرِ خِنْدِفٍ عِنْدَ الْبَلَائِ أَمْسٰی یُغَیَّبُ فِي الْمَلْحَدِ ’’شدائد و سختیوں کے وقت سب سے جلد پہنچنے والے پر جو فوت ہو کر گوشۂ قبر میں دفن کیا جا رہا ہے۔‘‘ فَصَلَّی الْمَلِیکُ وَلِيُّ الْعِبَادِ وَرَبُّ الْعِبَادِ عَلٰی أَحْمَدِ ’’مالک الملک، بادشاہ عالم، بندوں کا والی اور پروردگار، احمد مجتبیٰ پر سلام و رحمت بھیجے۔‘‘ فَکَیفَ الْحَیَاۃُ لِفَقْدِ الْحَبِیبِ وَزَیْنِ الْمُعَاشِرِ فِي الْمَشْھَدِ ’’اب کیسی زندگی، جو حبیب ہی بچھڑ گیا اور وہ نہ رہا جو زینت دو عالم تھا۔‘‘ فَلَیْتَ الْمَمَاتَ لَنَا کُلِّنَا فَکُنَّا جَمِیعًا مَعَ الْمُھْتَدِي ’’کاش! ہم سب کو موت آ جائے تا کہ ہم سب اس ہدایت والی ذات کے ساتھ مل جائیں۔‘‘ سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ اوران کے علاوہ بھی بعض دوسرے صحابہ رضی اللہ عنہم کے لکھے ہوئے مرثیے ہیں اور یہ مرثیے اس امر کی شہادت دیتے ہیں کہ صحابۂ کرام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد آپ کو اس طرح زندہ تصور نہیں کرتے تھے کہ آپ سے کچھ طلب کر سکیں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کی کوئی مدد کر سکیں۔ اگر یہ صورت ہوتی تو ان مرثیوں کی ضرورت نہ تھی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات پر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے عالمِ رنج میں تلوار کھینچ لی اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے وفات پا جانے کی نفی کی۔ اس پر حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کا خطبہ، حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی اس لغزش کی اصلاح اور امت کے لیے عقیدے کی درستی کا بہترین ذریعہ تھا۔ آپ کو بھی
Flag Counter