Maktaba Wahhabi

130 - 256
ہے توقع ان سے رحم و عفو و احساں کی عبث فرقہ زُہاد ہے ہم مشربِ چنگیزیاں شاعر کے ذہن رسا میں سوالات موج در موج ابھرتے چلے آئے ہیں کہ کیا قرآن و حدیث عہد و ماحول کے محکوم ہیں؟ کیا قرآن فرد سے مخاطب ہے یا جماعت سے؟ کیا دین و دنیا کے مفادات جدا جدا ہیں؟ اب افلاک سے نالوں کا جواب کیوں نہیں آتا؟ کیا آسمان کے دروازے بند ہوگئے؟ مگر خالدؔ نے اپنی شاعری میں : ’’بے شک میں تو اپنا غم اور پریشانی اللہ ہی کے سامنے پیش کرتا ہوں۔‘‘[1] کے اندازکے بجائے استغاثہ بہ رسول کی صورت میں سب کچھ پیش کیا ہے۔ چنانچہ جب عوام الناس نے ’’رب الناس‘‘ کو پکارنا ہی چھوڑ دیا اور عرش پہ استویٰ فرمانے والے ارض و سما کے رب کی بجائے زمین کی پشت پہ بسنے رسنے والے نبیوں، ولیوں اور نیک بندوں سے ا ستمداد و استعانت اور استغاثہ کرنے لگے تو: افلاک سے آتا ہے نالوں کا جواب آخر اٹھتے ہیں حجاب آخر، کرتے ہیں خطاب آخر کی کیفیت کیسے پیدا ہو؟
Flag Counter