Maktaba Wahhabi

202 - 256
اگر مجھے علم غیب ہوتا تو میں ہر نفع کی چیز کو ضرور حاصل کرلیا کرتا اور کوئی نفع میرے ہاتھ سے فوت نہ ہوتا اور ہر نقصان کی چیز سے ہمیشہ محفوظ ہی رہتا، حالانکہ بہت سے کام ایسے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں حاصل کرنا چاہا مگر حاصل نہیں ہوئے اور بہت سی تکلیفوں سے بچنے کا ارادہ کیا مگر وہ تکلیف پہنچ گئی۔ غزوئہ حدیبیہ کے موقع پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کے ساتھ عمرے کا احرام باندھ کر حدودِ حرم تک پہنچ گئے مگر حرم میں داخلہ اور عمرے کی ادائیگی اس وقت نہ ہوسکی۔ سب کو احرام کھول کر واپس ہونا پڑا۔ اسی طرح غزوئہ احد میں نبیٔ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو زخم پہنچا اور مسلمانوں کو عارضی شکست ہوئی۔ ہاں، اس میں شک نہیں کہ ہمارے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو غیب کی خبریں دی گئی ہیں جن کی سچائی کا ہر عام و خاص نے مشاہدہ کیا مگر اسے اصطلاح قرآن میں علم غیب نہیں کہہ سکتے۔‘‘[1] مختصر یہ کہ اللہ تعالیٰ نے حتمی بات ارشاد فرما دی: ٢٦﴾ إِلَّا مَنِ ارْتَضَىٰ مِن رَّسُولٍ فَإِنَّهُ يَسْلُكُ مِن بَيْنِ يَدَيْهِ وَمِنْ خَلْفِهِ رَصَدًا Ě ’’(وہی اللہ) عالم الغیب ہے اور کسی پر اپنے غیب کو ظاہر نہیں کرتا۔ ہاں، جس پیغمبر کو پسند فرمائے تو اس کے آگے اور پیچھے نگہبان مقرر کردیتا ہے۔‘‘[2] یعنی غیب کا پورا علم اللہ تعالیٰ ہی کے پاس ہے رسول خود عالم الغیب نہیں ہوتا بلکہ اللہ تعالیٰ جب اسے رسالت کا فریضہ انجام دینے کے لیے منتخب فرماتا ہے تو غیب کے حقائق میں سے جن چیزوں کا علم اللہ چاہتا ہے، اسے عطا فرمادیتا ہے۔[3]
Flag Counter