Maktaba Wahhabi

44 - 256
فرشتوں نے گزارش کی کہ ’’ہاں! تو برگزیدہ ہے ہمیں تو علم بس اتنا ہے جتنا تو نے بخشا ہے توئی ہے اے خدا، بس علم والا صاحبِ حکمت[1] اب عنایات و الطاف میں مزید اضافہ ہوا۔اللہ تعالیٰ کو آدم علیہ السلام کی طبیعت و فطرت کسی مونس و ہمدم کی جو یا نظر آئی تو ان کی زندگی میں راحت و سکون کے لیے حضرت حوّاء علیہا السلام کو پیدا کیا۔ حضرت آدم علیہ السلام اپنی رفیقۂ حیات کو پاکر بے حد مسرور ہوئے اور اطمینان قلب محسوس کیا۔ مستزاد یہ کہ دخول جنت کی نعمت حاصل ہوگئی: کہا یہ ہم نے آدم سے رہو گلزارِ جنت میں تم اپنی مونسہ یعنی کہ حوّا کی معیّت میں اور اس کی نعمتیں تم دونوں کھاؤ سیر ہو ہو کر طبیعت ہو تمھاری جس طرف بھی اور جس جا پر مگر ہاں! اس شجر کے پاس بھی زنہار مت جانا مبادا ظالموں کے ساتھ تم ہوجاؤ وابستہ پھر ان دونوں کے دل میں وسوسہ شیطان نے ڈالا تاکہ اک دوسرے پر فاش کردے ستر ہی ان کا یوں آدم علیہ السلام کے انسانی اور بشری خواص میں سب سے پہلے نسیان (بھول چوک) نے ظہور کیا مگر آدم علیہ السلام آخر مقبول بارگاہِ الٰہی تھے، اس لیے شیطان کی طرح مناظرہ نہیں کیا اور غلطی کو تاویلات کے پردے میں چھپانے کی سعیٔ نامشکور نہ کی بلکہ ندامت و شرمساری کے ساتھ اقرار کیا کہ غلطی ضرور ہوئی ہے لیکن تمرد و سرکشی سے نہیں بلکہ بربنائے
Flag Counter