Maktaba Wahhabi

188 - 263
تحقیق لفظ وسیلہ: ” وسیلۃ “ بروزن فعیلہ سے اعمال صالحہ اور اطاعت خداوندی مراد ہے جس سے اللہ تعالیٰ کا قرب حاصل ہو۔ امام آلوسی اور ابو السعود فرماتے ہیں(الوسیلة)القربة بالطاعة والعبادة[1]، حضرت قتادہ(رح)سے بھی یہی منقول ہے۔ والوسیلة هي القربة کما قال قتادة([2])قال قتادة ای تقربوا الیه بطاعته والعمل بما یرضیه [3]علامہ آلوسی دوسری جگہ فرماتے ہیں۔ هي فعيلة فعیلة بمعنی ما یتوسل به و یتقرب الی اللّٰه عز و جل من فعل الطاعات و ترک المعاصی من وسل الی کذا ای تقرب الیه بشیء[4] قرآن مجید کی نصوص سے بھی یہ حقیقت واضح ہے کہ ایمان باللہ، ایمان بالرسول اور اتباع رسول قرب خداوندی کا وسیلہ ہے۔ ارشاد ہے ” ربنا اننا سمعنا منادیا ینادی للایمان “ تا ”فاغفرلنا ذنوبنا و کفر عنا سیئاتنا ..“ [5]دوسری جگہ ارشاد ہے ” إِنَّهُ كَانَ فَرِيقٌ مِنْ عِبَادِي يَقُولُونَ رَبَّنَا آمَنَّا فَاغْفِرْ لَنَا[6]ان دونوں آیتوں میں ایمان والوں کی دعا کا ذکر ہے جس میں وہ ایمان باللہ کو وسیلہ قرار دے کر اللہ تعالیٰ سے بخشش کی دعا مانگ رہے ہیں۔ ایک اور جگہ ارشاد ربانی ہے ”ربنا امنا بما انزلت و اتبعنا الرسول فاکتبنا مع الشهدین[7]اس آیت میں حواریان عیسیٰ(علیہ السلام)نے ایمان بالکتاب اور اتباع رسول کے وسیلہ سے دعا مانگی۔ حدیث میں آتا ہے گذشتہ زمانے میں تین آدمی سفر کر رہے تھے، بارش شروع ہوگئی تو بچاؤ کے لیے ایک غار میں داخل ہوگئے۔ ایک بھاری چتان نے لڑھک کر غار کا منہ بند کردیا تو تینوں نے اعمال صالحہ کے وسیلہ سے دعا مانگی تو اللہ تعالیٰ نے چٹان کو نیچے لڑھکا کر غار کا منہ کھول دیا۔ ومن هذا الباب حدیث الثلثة الذین اصابتهم المطر فاو وا الی الغار وانطبقت علیهم الصخرة ثم دعو وا اللّٰه باعمالهم الصالحة ففرج عنهم[8] اسی طرح اگر کسی زندہ بزرگ سے دعا کرائی جائے تو یہ بھی ایک قسم کا وسیلہ ہے اور جائز ہے۔ لیکن اگر بزرگ فوت ہوچکا
Flag Counter