Maktaba Wahhabi

34 - 263
وَتَوَفَّنَا مَعَ الْأَبْرَارِ[1] دوسری جگہ ارشاد ربانی ہے: ﴿إِنَّهُ كَانَ فَرِيقٌ مِّنْ عِبَادِي يَقُولُونَ رَبَّنَا آمَنَّا فَاغْفِرْ لَنَا وَارْحَمْنَا وَأَنتَ خَيْرُ الرَّاحِمِينَ﴾[2] ان دونوں آیتوں میں ایمان والوں کی دعا کا ذکر ہے جس میں وہ ایمان باللہ کو وسیلہ قرار دے کر اللہ سےبخشش کی دعا مانگ رہے ہیں۔ ایک اور جگہ فرمان خداوندی ہے: ﴿رَبَّنَا آمَنَّا بِمَا أَنزَلْتَ وَاتَّبَعْنَا الرَّسُولَ فَاكْتُبْنَا مَعَ الشَّاهِدِينَ﴾[3] اس آیت میں حواریان عیسٰی علیہ السلام نے ایمان بالکتاب اور اتباع رسول کے وسیلہ سے دعا مانگی۔ حدیث شریف میں آتا ہے گزشتہ زمانے میں تین آدمی سفر کر رہے تھے‘بارش شروع ہوگئی تو بچاؤ کے لیے ایک غار میں داخل ہوگئے‘ایک بھاری چٹان نے لڑھک کر غار کا منہ بند کر دیا توتینوں نےاعمال صالحہ کے وسیلہ سے دعا مانگی تو اللہ رب العزت نے چٹان کو نیچے لڑھکا کر غار کا منہ کھول دیا۔[4] اسی طرح اگر کسی زندہ بزرگ سے دعا کرائی جائے تو یہ بھی ایک قسم کا وسیلہ ہے اور جائز ہے۔لیکن اگر بزرگ فوت ہو چکا ہو یا کہیں دور موجود ہو تو اس سے غائبانہ دہا کی درخواست کرنا اس خیال سے کہ وہ جانتا ہے یہ ہر گز جائز نہیں ہے۔ الاستغاثة بمخلوق وجعله وسيلة بمعنى طلب الدعاء منه لا شك في جوازه إن كان المطلوب منه حيا موجداً ....وأما إذا كان المطلوب منه ميتا أو غائبا فلا يستريب عالم أنه غير جائز وأنه من البدع التي لم يفعلها أحد من السلف.... ولم يرد عن أحد من الصحابة رضي اللّٰه تعالى عنهم.... وهم أحرص الخلق على كل خير....الخ[5] حدیثوں میں وارد ہے کہ لوگ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر آپ سے دعا کی درخواست کیا کرتے تھے لیکن نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد کسی ایک صحابی سے بھی صحیح سند کے ساتھ ثابت نہیں کہ اس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر پر جا
Flag Counter