Maktaba Wahhabi

35 - 263
کر دعا کی درخواست کی ہو۔قرآن مجید کی آیت﴿وَلَوْ أَنَّهُمْ إِذْ ظَلَمُوا أَنْفُسَهُمْ جَاءُوكَ فَاسْتَغْفَرُوا اللّٰهَ وَاسْتَغْفَرَ لَهُمُ الرَّسُولُ لَوَجَدُوا اللّٰهَ تَوَّابًا رَحِيمًا[1]سے زندگی میں دعا کرانا مقصود ہے۔اہل بدعت نے اس آیت سے استدلال کیا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ رضی اللہ عنہ کی قبروں پر جا کر ان کو مخاطب کر کے وسیلہ پکڑنا جائز ہے۔اگر اس طرح قبر پر جا کر وسیلہ پکڑنا جائز ہوتا تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ حضرت عباس رضی اللہ عنہ کی دعا سے وسیلہ نہ پکڑتے بلکہ سیدھے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر مبارک پر جا کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے وسیلہ پکڑتے۔جبکہ بخاری شریف میں ہے کہ حضرت عمررضی اللہ عنہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا عباس رضی اللہ عنہ کو باہر لے جاتے دوسرے مسلمان بھی موجود ہوتے تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ اللہ تعالیٰ سے التجا کرتے: ((اللّٰهُمَّ إِنَّا كُنَّا نَتَوَسَّلُ إِلَيْكَ بِنَبِيِّنَا فَتَسْقِينَا وَإِنَّا نَتَوَسَّلُ إِلَيْكَ بِعَمِّ نَبِيِّنَا فَاسْقِنَا قَالَ فَيُسْقَوْنَ))[2] ’’اے اللہ! پہلے ہم تیرے پاس اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا وسیلہ لایا کر تے تھے۔ تو تو پانی برساتا تھا۔ اب ہم اپنے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا کو وسیلہ بناتے ہیں تو تو ہم پر پانی برسا۔پس انہیں بارش عطا کی جاتی۔‘‘ پس اس سے معلوم ہوا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا سے توسل اگر وفات کے بعد بھی جائز ہوتا تو صحابہ کرام رضی اللہ عنہ اس اعلٰی توسل کو چھوڑ کر حضرت عباس رضی اللہ عنہ کی دعا سے توسل نہ لیتے۔[3] حضرت عباس رضی اللہ عنہ سے توسل کا مطلب یہ ہے کہ وہ دعا کرتے تھے او رلوگ آمین کہتے تھے إن العباس كان يدعولهم ويؤمنون لدعائه حتى سقوا[4] اسی طرح بحق فلاں دعا مانگنا بھی مکروہ تحریمی ہےکیونکہ اللہ پر کسی کا حق نہیں۔البتہ یوں کہنا جائز ہے۔اللّٰهم اني اسئلك بمحبتى له وباتباعى اياه اسی طرح توسل بالذات بھی ثابت نہیں ہے وأنت تعلم أن الأدعية المأثورة عن أهل البيت الطاهرين وغيرهم من الأئمة ليس فيها التوسل بالذات المكرمة صلّى اللّٰه عليه وسلّم[5] توسل بالاموات پر جن بعض حدیثوں سے استدلال کیا جاتا ہے ان میں سے کوئی بھی روایت صحیح نہیں ہے کوئی حدیث موضوع ہے اور کسی کے راوی مجہول الحال ہیں یا ضعف کی کوئی نا کوئی علت پائے جانے کی وجہ سے روایت ضعیف ہے۔واللہ اعلم۔
Flag Counter