Maktaba Wahhabi

49 - 263
ضروری ہے۔ یہاں جو چیز سب سے پہلے ذہن میں رکھنی چاہیے وہ یہ ہے کہ نسخ کی اصطلاح کو مختلف گروہ کے حاملین نے مختلف معنوں میں لیا ہے۔صحابہ اور تابعین نے کسی اور معنیٰ میں محدثین نے کسی اور معنی میں اور علماء اصول نے کسی اور معنی میں چنانچہ ایک ہی اصطلاح کے تین مختلف معنوں میں استعمال کی وجہ سے پیچیدگی پیدا ہونا ضروری تھا اور پیدا ہوئی بھی۔ صحابہ اورتابعین کا گروہ لفظ نسخ کو تقریباً اس کے لغوی معنی یعنی کسی چیز کو زائل کرنے اور مٹانے کے معنٰی میں استعمال کرتا تھا‘چنانچہ ان کی اصطلاح کے اعتبار سے نسخ کے معنٰی یہ ہیں’’پہلی آیت کے کسی حکم کو دوسری آیت کے ذریعہ ختم کر دینا‘‘اور اس کی مختلف صورتیں ہیں کبھی تو دوسری آیت کے ذریعہ یہ وضاحت کر دی جاتی ہے کہ پہلی آیت کے ذریعہ جو حکم دیا گیا تھا اس پر عمل کی مدت تمام ہوگئی کبھی دوسری آیت میں کچھ ایسی باتیں بیان کی جاتی ہیں جن سے پہلی آیت کے ظاہری حکم کے بجائے ذہن کسی دوسرے حکم کی طرف متوجہ ہو جاتاہے‘ اس طرح پہلا حکم آپ ہی آپ ختم ہوجاتاہےکبھی تنسیخ کا یہ اندازاختیار کیا جاتا ہےکہ دوسری آیت میں کسی ایسی شرط پر بطور خاص زور دیا جاتا ہے جس کی وجہ سے پہلی آیت کا حکم عام خص ہو جاتا ہے اس طرح وہ حکم عام منسوخ سمجھا جانے لگتا ہے اور کبھی دوسری آیت میں کوئی ایسا نکتہ پیش کیا جاتا ہے جس سے پہلی آیت کا حقیقی مفہوم متعین ہو جاتا ہے اور تک اس کا جو جواب سمجھا جاتا رہاتھا وہ منسوخ ہو جاتا ہے یہ صورت حال ایس ہے کہ جس کی وجہ سے اس مبحث کو بڑی وسعت حاصل ہوگئی ہےاور عقل انسانی کی دراندازی کی بڑی گنجائش نکل آئی ہیں جس کا لازمی نتیجہ اختلافات کی کثرت کی صورت میں ظاہر ہوا اور منسوخ آیات کی تعداد رفتہ رفتہ پانچ سو تلک پہنچ گئی۔ والثانيةان النسخ بالمعنى الاصطلاحى الاصل فى بيان معرفةالتاريخ ولكنهم ربما يجعلون إجماع السلف الصالح أو اتفاق جمهور العلماء على شيء علامة للنسخ فيقولون به وارتكب ذالك كثير من الفقهاءويمكن أن يكون ما صدقت عليه الاية غير ما صدق عليه الاجماع وبالجملة فان تتبع الاثار المبنية من النسخ....كثيرا وفى الوصول الى عمث الكلام صعوبة وللمحدثين اشياء خارجة عن هذه الاقسام يوردونها ايضاكمناظرة الصحابةفي مسئلة والاستشهاد بهذا الاية او نستيلهم بذكر هذه الاية اوتلاوةحضرصلي اللّٰه عليه وسلم لهذه الاية بطريق الاستشخاد ورواية حديث يوافق الايةفي اصل المعنى وطريق التلفظ بالنقل عنه صلي اللّٰه عليه وسلم او الصحابة۔[1] منسوخ آیات کے سلسلہ میں دوسرا نکتہ جو ذہن میں رکھنا چاہیے وہ یہ ہے کہ اس کا اتمام تر دارومدار تاریخ دانی پر ہے
Flag Counter