Maktaba Wahhabi

59 - 263
گزارنے کے بعد’’ججہ‘‘ تحصیل گوجر خان کے مولانا احمد دین[1]کے پاس پہنچے[2]۔ اور باقاعدہ طور پر ان کےسامنےزانوئےتلمذ طے کیا اور ان سے صرف ونحواور عربی گرائمر کی کتابیں بہت محنت‘شوق اور انہماک سے پڑھیں۔آپ فارسی اور عربی گردانوں کو ہر روز سو سو بار دہراتے تھے اور اس مقصد کے لیے کنکریاں اکھٹی کر رکھی تھیں جنہیں تسبیح کے دانوں کے طور پر گننے کے لیے استعمال کرتے تھے۔([3])مولانا احمد دین’’ججہ‘‘سےاپنے گاؤں ٹھٹھہ منتقل ہوئے تو غلام اللہ خان بھی یہیں چلے آئے اور ابتدائی کتابوں کی تکمیل کی۔ مولانا نے کچھ ابتدائی کتابیں گوکل ہر پور(ہزارہ)کے مولانا سکندر خان[4]۔اور ان کے بھائی مولانا محمد اسماعیل سے بھی پڑھیں۔[5] مولانا غلام اللہ خان صاحب کے زمانے میں حضرت مولانا غلام رسول المعروف’’انّہی والا بابا‘‘کی بہت شہرت تھی اور علمی دنیا انہیں معقولات ومنقولات کا امام سمجھتی تھی۔ انہیں تدریس پر ایسی مہارت اور عبور تھا کہ ان کا نام ہی طالب علم کی ذہانت اور لیاقت کی دلیل تھا۔دیوبند جیسے بڑے دین مدارس میں ان کے شاگردوں کو بغیر امتحان کے داخلہ دے دیا جاتا تھا۔ ’’انہی‘‘ضلع گجرات(اب منڈی بہاؤ الدین)کی تحصیل منڈی بہاؤ الدین کا ایک چھوٹا سا گاؤں ہے جہاں باباجی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی مسندِ تدریس بچھارکھی تھی۔اس مدرسےکا کوئی نام تھا‘ نہ عمارت‘نہ دفتر تھا‘نہ ریکارڈ مگر شہرت تھی۔ترکستان تک سے طالب علم پڑھنے کے لیے آتے تھے۔ مولانا غلام اللہ خان رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے استاد مولانا احمد دین رحمۃ اللہ علیہ کی ہدایت پر’’انّہی‘‘کا عزم کیا اور بابا جی رحمۃ اللہ علیہ کی خدمت میں حاضرہوگئے۔اس زمانے میں حضرت مولانا ولی اللہ صاحب جوبابابا جی رحمۃ اللہ علیہ کے دامابھی تھے‘یہاں معاون مدرس تھے مولانا غلام اللہ نے ’’انہی‘‘کے اساتذہ سے منطق‘فلسفہ‘فقہ‘علام الکلام‘ادبِ عربی‘ریاضی‘تفسیر اور حدیث کی کتابیں پڑھیں اور منطق اور ریاضی میں خصوصی مہارت حاصل کی جس کا اس عہد کے جید علماء اور اساتذہ کو اعتراف تھا۔[6]
Flag Counter