Maktaba Wahhabi

105 - 331
اعمال و افعال اور کردار پر اللہ تعالیٰ راضی ہو گا۔ امام ابن قیم رحمہ اللہ نے پہلی فصل میں قرآن کریم کی یہ آیت پیش کی ہے:(ترجمہ)کون ہے جو اس کی جناب میں اس کی اجازت کے بغیر سفارش کر سکے؟ اور دوسری فصل میں یہ آیت ذکر کی ہے کہ:(ترجمہ)وہ کسی کی سفارش نہیں کرتے بجز اُس کے جس کے حق میں سفارش کرنے پر اللہ راضی ہو۔‘‘ رہی تیسری فصل تو اس میں فرماتے ہیں کہ ’’اللہ تعالیٰ کسی کے قول و عمل پر اس وقت تک قطعاً اظہار رضامندی نہیں کرتا جب تک کہ وہ توحید خالص کا حامل اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا متبع نہ ہو۔‘‘ یہ تینوں فصلیں اُس شخص کے دِل سے شرک کی جڑیں کاٹنے کے لئے کافی ہیں،جس میں عقل و خرد کا مادہ موجود ہے اور وہ غور و فکر کے لئے بھی تیار ہے۔امام ابن قیم رحمہ اللہ سلسلہء کلام کو جاری رکھتے ہوئے مزید فرماتے ہیں کہ شفاعت کی چھ قسمیں ہیں۔ (۱)۔ پہلی:شفاعت کبری ہے،جس سے اولوالعزم انبیاء علیہم السلام بھی گھبرا جائیں گے۔حتی کہ معاملہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم تک آ پہنچے گا۔رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم فرمائیں گے:’’انا لھا‘‘ کہ یہ میرا ہی کام ہے۔یہ واقعہ اس وقت پیش آئے گا جب کائنات کے تمام لوگ یکے بعد دیگرے تمام انبیاء کی خدمت میں حاضر ہو کر شفاعت کے لئے عرض کریں گے کہ اس مقام کے عذاب سے لوگوں کو نجات ملنی چاہیئے۔اس شفاعت کے وہی لوگ مستحق ہوں گے جنہوں نے اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھہرایا ہو گا۔ (۲)۔ دوسری شفاعت دخولِ جنت کی ہو گی۔اس کا مفصل بیان سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی روایت میں موجود ہے جو صحیحین میں مروی ہے۔اور گذشتہ سطروں میں گزر چکی ہے۔ (۳)۔ تیسری شفاعت ان لوگوں کی ہو گی جو اُمت محمدیہ صلی اللہ علیہ وسلم میں سے ہوتے ہوئے اپنے گناہوں کی پاداش میں دخولِ جہنم کے مستوجب قرار پا جائیں گے لیکن رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جہنم میں داخل ہونے سے پہلے ان کی شفاعت کریں گے تاکہ یہ لوگ دوزخ میں نہ جا سکیں۔ (۴)۔ چوتھی شفاعت ان اہل توحید کے لئے ہو گی جو اپنے گناہوں کی وجہ سے جہنم کی سزا بھگت رہے ہوں گے۔احادیث متواترہ،اجماعِ صحابہ رضی اللہ عنہم،اور اہل سنت کا اس پر اتفاق ہے کہ اہل توحید اپنے گناہوں کی وجہ سے سزا بھگتیں گے۔جو لوگ اس کا انکار کرتے ہیں ان نفوس قدسیہ نے ان کو بدعتی قرار دیا ہے،ان کی نکیر کی ہے اور ان کو گمراہ ٹھہرایا ہے۔
Flag Counter