Maktaba Wahhabi

163 - 331
مطلب یہ ہے کہ رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسی وضاحت فرمادی ہے کہ اس قسم کی مصائب ومشکلات صرف الله تعالیٰ کی قضاء قدر سے ظہور پذیر ہوتی ہیں۔انسان کو چاہیئے کہ وہ صحت وعافیت کی زندگی بسر کرے اور ان اسباب وعلل سے دامن کشاں رہے جن سے کسی مصیبت میں مبتلا ہونے کا خطرہ ہو،جیسا کہ اسے حکم ہے کہ خواہ مخواہ آگ اور پانی میں نہ کود جائے۔کیونکہ ان کی فطرت اور جبلت میں یہ اثر پایا جاتا ہے کہ وہ انسان کو ہلاک کردیتے ہیں۔اسی طرح انسان کو چاہیے کہ مجذوم کے پاس جانے سے پرہیز کرے۔اور ایسے شہر میں جانے کی کوشش نہ کرے جہاں طاعون کی وبا پھیلی ہوئی ہو۔کیونکہ وہاں جانا اپنے آپ کو ہلاکت میں ڈال دینے کے مترادف ہے۔اور اس بات کو قطعاً نہ بھولے کہ تمام اسباب کا پیدا کرنے والا الله تعالیٰ ہے۔کسی دوسرے کی کوئی مجال اور طاقت نہیں کہ وہ کسی سبب کو سود مند یا ضرررساں بنادے۔ ہاں! البتہ جب توکل علی اللہ اور قضا و قدر پر ایمان مضبوط تر ہو جائے،اس قسم کے مریضوں کے پاس جانے میں انسان کے لرزش نہ پیدا ہو،اللہ تعالیٰ پر اعتماد و یقین کمال کی حد تک پہنچا ہوا ہو اور اس کے قلب میں یہ بات راسخ ہو چکی ہو کہ اللہ کی مرضی اور مشیت کے بغیر کچھ نہیں ہو سکتا،تو اس صورت میں بعض اوقات انسان اسباب پر حاوی ہو جاتا ہے اور خصوصاً جب کوئی خاص یا عام مصلحت ہو تو انسان کو ضرور جانا چاہیئے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس عمل کو بھی اسی پر محمول کیا جائے گا جس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مجذوم کو پکڑا اور اپنے ساتھ کھانا کھانے کی دعوت دیتے ہوئے فرمایا کہ:ترجمہ:’’اللہ تعالیٰ کا نام لے کر اور اس پر بھروسہ اور توکل کر کے کھانا شروع کرو۔‘‘ امام احمدرحمہ اللہ نے اس کو روایت کیا ہے اور یہ حدیث عبداللہ بن عمر اور سلمان فارسی سے بھی مروی ہے سیدنا خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کے واقعے سے اس کی مزید تائید ہوتی ہے جبکہ آپ رضی اللہ عنہ نے زہر ہلاہل کے جام کو بسم اللہ پڑھ کر پی لیا اور اس زہر نے رتی بھر بھی تکلیف نہ پہنچائی۔سیدنا سعد بن ابی وقاص اور ابومسلم الخولانی رضی اللہ عنہما کو دیکھئے کہ وہ اپنی فوج سمیت سمندر کی سطح پر ایسے چلے جا رہے تھے جیسے خشکی پر محو سفر ہوں۔ صحیح مسلم میں ایک روایت ہے کہ سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ بن الحکم نے ایک دفعہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا کہ ہم میں چند افراد ایسے بھی ہیں جو فالِ بد لیتے ہیں،تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:(ترجمہ)’’یہ ویسے ہی اپنے دل میں وسوسہ اور وہم پاتے ہیں،اس کی وجہ سے وہ اپنے کام سے نہ رُکیں۔‘‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی وضاحت فرمائی کہ ہے کہ اس قسم کا تشاؤم اور فالِ بد لینا انسان کے عقیدہ سے تعلق رکھتا ہے۔فی نفسہٖ کسی پرندے وغیرہ کے اُڑانے میں تطیر نہیں ہے کیونکہ انسان کا وہم،خوف کھانا اور
Flag Counter