Maktaba Wahhabi

168 - 331
کرتا ہے۔اسے ابوداؤد اور ترمذی نے روایت کرکے صحیح کہا اور آخری جملہ یعنی ’’وَمَا مِنَّا إِلَّا وَ لٰکِنَّ اللّٰه یُذْھِبُہٗ بِالتَّوَکُّلِ‘‘ کو ابن مسعود رضی اللہ عنہ کا قول قرار دیا ہے۔ وَ لِاَحْمَدَ مِنْ حَدِیْثِ ابْنِ عَمْرٍ و مَنْ رَدَّتْہُ الطِّیَرَۃُ عَنْ حَاجَتِہٖ فَقَدْ أَشْرَکَ قَالُوْا فَمَا کَفَّارَۃُ ذٰلِکَ قَالَ أَنْ تَقُوْلَ اَللّٰھُمَّ لَا خَیْرَ إِلَّا خَیْرُکَ وَ لَا طَیْرَ إِلَّا طَیْرُکَ وَ لَآ إِلٰہَ غَیْرُکَ ترجمہ:مسند احمد میں عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس شخص کو فالِ بد اپنے کام سے روک دے اس نے شرک کیا صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین نے عرض کی کہ اس کا کفارہ کیا ہے ؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرمایا اس کا کفارہ یہ ہے کہ تم کہو:’’اے اللہ،تیری بھلائی کے سوا کوئی بھلائی نہیں اور تیرے پرند کے سوا کوئی پرند نہیں اور تیرے سوا کوئی معبود نہیں۔ کسی چیز کو دیکھ کر یا سن کر اس کو منحوس سمجھتے ہوئے اپنے کام یا سفر سے رُک جانا شرک ہے لہٰذا جو شخص ایسا خلافِ شریعت عمل کرے گا وہ مشرک ہو گا۔اور اس لحاظ سے کہ ایسے شخص نے اللہ تعالیٰ پر توکل اور اعتماد نہیں کیا بلکہ غیر اللہ پر اعتماد کر لیا ہے اس لئے اس کے اس فعل میں شیطان کا عمل دخل اور اس کا حصہ پایا جائے گا۔ ولہ من حدیث الفضل ابن عباس إِنَّمَا الطَِّیَرَۃُ مَا اَمْضَاکَ اَوْ رَدَّکَ مسند احمد میں سیدنا فضل بن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ فالِ بد یہ ہے کہ وہ تجھے کسی کام میں لگا دے یا روک دے۔ جب کوئی شخص تطیر کے بعد اس کے مطابق عمل کرے یعنی یا تو اپنے کام سے رُک جائے یا اُس پر عمل شروع کر دے،تو یہی وہ حد فاصل ہے جسکی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ممانعت فرمائی ہے،کیونکہ انسان تطیر پر اعتماد اور بھروسہ کر لیتا ہے۔اور وہ فال جس کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پسند فرمایا ہے اس میں اعتماد صرف اللہ تعالیٰ پر ہی ہوتا ہے۔اس میں صرف خوشی اور مسرت کا پہلو نمایاں ہوتا ہے اور بس۔اس امتیازی فرق کو بالکل نہ بھولنا چاہیئے۔ فیہ مسائل ٭ اللہ تعالیٰ کے قول۔٭مرض کے متعدی ہونے کی نفی۔٭فالِ بد کی
Flag Counter