Maktaba Wahhabi

193 - 331
میں اوپر اور اجنبی کی حیثیت میں تھا اور اس پر وہی اجنبیت کا دَور پھر لوٹ آئے گا۔‘‘(مسلم،ابن ماجہ،ترمذی)۔ مہاجرین و انصار،تمام صحابہء رسول رضی اللہ عنہ اور سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ اور سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے دورِ خیر القرون میں سب کی یہ حالت تھی کہ صرف اللہ تعالیٰ کی محبت اور اس کا قرب حاصل کرنے کے ئے اپنی خاص اور اشد ضرورت کے باوجود دوسروں کو ترجیح دیتے تھے۔اس کا نقشہ قرآن کریم نے ان الفاظ میں کھینچا ہے کہ(ترجمہ)’’اور اپنی ذات پر دُوسروں کو ترجیح دیتے ہیں خواہ اپنی جگہ خود محتاج ہوں۔‘‘(الحشر:۹)۔ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ،صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے اس وصف کو بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ:’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دَور میں ہم سب لوگ اپنے درہم و دینار کے بارے میں اپنے آپ سے اپنے دُوسرے مسلمان بھائیوں کو زیادہ حقدار سمجھتے تھے‘‘(ابن ماجہ)۔ وَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ فِیْ قَوْلِہٖ تَعَالٰی وَ تَقَطَّعَتْ بِھِمُ الْأَسْبَابٌ قَالَ الْمَوَدَّۃ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ نے اس آیت کہ ’’ اور ان کے اسباب وسائل کا سلسلہ کٹ جائے گا۔‘‘ کی یہ تفسیر کی ہے کہ اسباب کے معنی دوستی اور تعلقات ہیں۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ کے اس قول کو عبد بن حمید،ابن جریر،ابن المنذر،ابن ابی حاتم اور حاکم نے بھی نقل کیا ہے اور حاکم نے اس کو صحیح قرار دیا ہے۔معنی یہ کہ دُنیاوی محبت اور دوستی قیامت کے دن ان کو کوئی فائدہ نہ دے سکے گی جبکہ میدانِ محشر میں اُن کو اس دوستی کی اشد ضرورت ہو گی۔بلکہ وہاں تو ایک دُوسرے سے بیزاری اور قطع تعلق کا اظہار کریں گے۔ان کی اس حالت کو اللہ تعالیٰ ان الفاظ میں بیان فرماتا ہے کہ:(ترجمہ)’’اور اس نے کہا تم نے دُنیا کی زندگی میں تو اللہ کو چھوڑ کر بتوں کو اپنے درمیان محبت کا ذریعہ بنا لیا ہے مگر قیامت کے روز تم ایک دوسرے کا انکار اور ایک دوسرے پر لعنت کرو گے اور آگ تمہارا ٹھکانہ ہو گی اور کوئی تمہارا مددگار نہ ہو گا۔‘‘(العنکبوت:۲۵)۔قرآنِ کریم کی آیت:اِذْ تَبَرَّاَ الَّذِیْنَ اتَّبَعُوْا مِنَ الَّذِیْنَ اتُّبِعُوْا وَرَاَوُ الْعَذَابَ کی تشریح میں علامہ ابن قیم رحمہ اللہ لکھتے ہیں:’’پیشوا ہدایت یافتہ اور سیدھے راستے پر تھے اور ان کی اتباع اور پیروی کرنے والوں نے دعویٰ تو یہ کیا کہ ان کے نقش قدم پر چلتے اور ان کی پیروی کرتے ہیں لیکن صورتِ حال اس کے بالکل برعکس تھی۔یہ رات دن اِن کی مخالفت کرتے اور بدعملی کا شکار رہے اور صرف زبانی محبت اور دوستی کو یہ سمجھ بیٹھے کہ اس سے ہمیں فائدہ ہو گا۔قیامت کے روز اِن ہی بدعملوں سے وہ لوگ اپنی برات اور لا تعلقی کا علی الاعلان اظہار کریں گے کیونکہ ان لوگوں نے اللہ تعالیٰ کو چھوڑ کر دوسروں کی محبت کا دعویٰ کیا تھا۔یہی
Flag Counter