Maktaba Wahhabi

218 - 331
قَالَ وَمَنْ یَّقْنَطُ مِنْ رَّحْمَۃِ رَبِّہٖٓ اِلَّا الضَّآلُّوْنَ(الحجر) سیدنا ابراہیم علیہ السلام نے کہا:اپنے رب کی رحمت سے مایوس تو گمراہ لوگ ہی ہوا کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ سے نااُمید ہونے اور اس کی طرف سے مصائب کے حل کو مستبعد سمجھنے کو قنوط کہتے ہیں۔اس کے بالمقابل اللہ کی گرفت سے بے خوف ہونا۔یہ دونوں کبیرہ گناہوں میں سے ہیں اور تصورِ توحید کے منافی ہیں۔زیر نظر آیت اور اس سے پہلے بیان کی گئی آیت کریمہ کو مصنف رحمہ اللہ نے اس لئے یکجا بیان کیا ہے جو شخص اللہ تعالیٰ سے ڈرتا ہے اُس کو رحمت الٰہی سے مایوس نہیں ہونا چاہیئے بلکہ خوف اور اُمید کے بین بین زندگی گزارنا چاہیئے۔انسان اپنے گناہوں سے ڈرتا اور اُس کی اطاعت میں عمل صالح کرتا رہے اور پھر اُس کی رحمت کا اُمیدوار بھی رہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:(ترجمہ)’’(بھلا اس شخص کی روش بہتر ہے یا اس شخص کی)جو مطیع فرمان ہے رات کی گھڑیوں میں کھڑا رہتا ہے اور سجدے کرتا ہے۔آخرت سے ڈرتا ہے اور اپنے رب کی رحمت سے اُمید لگاتا ہے؟(الزمر:۹)۔دوسرے مقام پر فرمایا:(ترجمہ)’’جو لوگ ایمان لائے ہیں اور جنہوں نے اللہ کی راہ میں اپنا گھربار چھوڑا اور جہاد کیا ہے وہ رحمت الٰہی کے جائز اُمیدوار ہیں اور اللہ ان کی لغزشوں کو معاف کرنے والا اور اپنی رحمت سے اُنہیں نوازنے والا ہے۔‘‘(البقرۃ:۲۱۸)۔ اللہ تعالیٰ اور اُس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت و فرمانبرداری کو چھوڑ کر نافرمانی اور گناہوں پر اصرار کرنا اور اس پر بخشش کی اُمید رکھنا شیطان کا زبردست دھوکا اور فریب ہے تاکہ بندے کو خوفناک کیفیت میں ڈال دے اور ان اسباب و ذرائع کے قریب بھی نہ آنے دے جن کی وجہ سے انسان نجات حاصل کر سکے۔لیکن اہل ایمان اور توحید میں پکے افراد کا ہمیشہ یہ دستور رہا ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ سے ڈرتے ہوئے ان اسباب سے دست کش نہیں ہوتے جن سے کامیابی اور نجات ممکن ہے وہ اللہ کے عذاب سے بھاگتے اور اُس کی بخشش کی اُمید رکھتے ہیں۔اور ان کے سینوں میں اجر و ثواب کی توقع پنہاں ہوتی ہے۔ آیت زیربحث کا معنی یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے خلیل سیدنا ابراہیم علیہ السلام کا قول نقل فرمایا ہے،یہ اُس وقت کا واقعہ ہے جب فرشتوں نے سیدنا خلیل علیہ السلام کو سیدنا اسحق علیہ السلام کی پیدائش کی خوشخبری سنائی تھی،چنانچہ اس خوشخبری پر سیدنا ابراہیم علیہ السلام نے کہا:(ترجمہ)’’کیا تم اس بڑھاپے میں مجھے اولاد کی بشارت دیتے ہو،ذرا سوچو تو سہی کہ یہ کیسی بشارت تم مجھے دیتے ہو‘‘؟(الحجر:۵۴)۔کیونکہ دنیا کا دستور یہ ہے کہ جب انسان خود اور اس کی بیوی بڑھاپے کی عمر کو پہنچ جاتے ہیں تو پھر اولاد کا پیدا ہونا بہت ہی مشکل نظر آتا ہے،لیکن اللہ تعالیٰ کے
Flag Counter