Maktaba Wahhabi

251 - 331
بیر پڑ گیا جب تک کہ تم اللہ واحد پر ایمان نہ لاؤ۔‘‘(الممتحنہ:۴)۔لہٰذا جو شخص غیر اللہ میں سے کسی کی عبادت کرتا ہے،وہ ان حدود سے تجاوز کرنے کے جرم کا ارتکاب کرتا ہے اور اس کو معبود گردانتا ہے جس کا وہ مستحق نہیں تھا۔ امام مالک رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’ہر وہ چیز جس کی اللہ کے سوا عبادت کی جائے طاغوت کہلاتی ہے۔‘‘ اللہ تعالیٰ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے علاوہ کسی سے فیصلہ کرانے والے شخص کی مثال اس شخص کی سی ہے جس نے پوری شریعت اسلامیہ کا انکار کر دیا ہو،اور مزید برآں یہ کہ اس نے غیر اللہ کو اپنی اطاعت میں شریک ٹھہرا لیا ہو۔اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:’’پس اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم تم اللہ کے نازل کردہ قانون کے مطابق ان لوگوں کے معاملات کا فیصلہ کرو اور ان کی خواہشات کی پیروی نہ کرو۔ہوشیار رہو کہ یہ لوگ تم کو فتنہ میں ڈال کر اس ہدایت سے ذرہ برابر منحرف نہ کرنے پائیں جو اللہ نے تمہاری طرف نازل کی ہے۔‘‘ دوسری جگہ پر فرمایا:(ترجمہ)’’اے محمد(صلی اللہ علیہ وسلم)تمہارے رب کی قسم یہ کبھی مومن نہیں ہو سکتے جب تک کہ اپنے باہمی اختلافات میں یہ تم کو فیصلہ کرنے والا نہ مان لیں،پھر جو کچھ تم فیصلہ کرو اس پر اپنے دلوں میں بھی کوئی تنگی نہ محسوس کریں بلکہ سربسر تسلیم کر لیں۔‘‘(النساء:۶۵)۔ پس جو شخص اللہ تعالیٰ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مخالفت بایں طور پر کرتا ہے کہ وہ کتاب و سنت کے علاوہ کسی اور جگہ سے فیصلہ کرواتا ہے یا اپنی خواہشات کی تکمیل میں مگن ہے تو گویا اس نے عملاً ایمان اور اسلام کی رسی کو گردن سے اتار پھینکا ہے۔اس کے بعد خواہ وہ کتنا ہی ایمان اور اسلام کا دعویٰ کرے بیکار ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ایسے لوگوں کو جھوٹا قرار دیا ہے۔لفظ یَزْعُمُوْنَ وہاں استعمال کیا جاتا ہے جہاں عمل دعویٰ کے خلاف کیا جارہا ہو۔ہمارے اس دعویٰ کی دلیل قرآن کریم کی زیر نظر آیت ’’و قَدْ اُمِرُوْا اَنْ یَّکْفُرُوْا بِہٖ‘‘ ہے۔حقیقت یہ ہے کہ طاغوت کا انکار کرنا توحید کا سب سے اہم رکن ہے جب تک کسی شخص کے اندر یہ رکن نہ ہو گا اس وقت تک اسے موحد کہنا غلط ہے تمام اعمال اور ایمان کی اساس اور مرکزی حیثیت توحید کو حاصل ہے۔اعمال کی صحت اور عدمِ صحت کا دارومدار توحید ہی پر ہے اسی سلسلے میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:(ترجمہ)’’جو کوئی طاغوت کا انکار کر کے اللہ پر ایمان لے آیا اُس نے ایسا مضبوط سہارا تھام لیا جو کبھی ٹوٹنے والا نہیں‘‘(البقرۃ:۲۶۵)۔اپنے فیصلے طاغوت کے پاس لے جانے کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ جانے والے کا اس پر ایمان ہے۔ طاغوت کے پاس اپنے متنازعہ معاملات لے جانے اور وہاں سے فیصلہ طلب کرنے کا اصل محرک شیطان ہوتا ہے اور وہ اس قسم کی باتیں بہت ہی خوبصورت انداز میں انسان کے دل میں ڈالتا ہے۔اس طرح
Flag Counter