Maktaba Wahhabi

48 - 331
اُولٰٓئِکَ الَّذِیْنَ یَدْعُوْنَ یَبْتَغُوْنَ اِلٰی رَبِھِمُ الْوَسِیْلَۃَ اَیُّھُمْ اَقْرَبُ وَ یَرْجُوْنَ رَحْمَتَہٗ وَ یَخَافُوْنَ عَذابَہٗ اِنَّ عَذابَ رَبِّکَ کَانَ مَحذُوْرًا جن کو یہ لوگ پکارتے ہیں وہ تو اپنے رب کے حضور رسائی حاصل کرنے کا وسیلہ تلاش کررہے ہیں کہ کون اس سے قریب تر ہوجائے اور وہ اس کی رحمت کے اُمید وار اور اس کے عذاب سے خائف ہیں۔حقیقت یہ ہے کہ تیرے رب کا عذاب ہے ہی ڈرنے کے لائق۔ یہ آیت کریمہ انبیاء و مرسلین اور ان کے متبع مومنوں کا راستہ اور طریق عمل متعین کرتی ہے کہ وہ اللہ ہی کا وسیلہ تلاش کرتے ہیں۔چنانچہ قتادہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ:’’اللہ کی اطاعت سے اور ایسے اعمال سے جو اس کے نزدیک پسندیدہ ہیں،اس کا قرب حاصل کرو۔‘‘ ابن زید رحمہ اللہ فرماتے ہیں:’’جن صالحین اور اولیاء کو تم پکارتے ہو اور ان سے استغاثہ و استعانت کرتے ہو وہ تو خود اللہ کو وسیلہ بناتے ہیں۔اب تم ہی بتاؤ کہ صحیح بات سے اقرب(زیادہ قریب)کون ہے۔‘‘ علامہ ابن قیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ اس آیت میں تین مقامات کا ذکر کیا گیا ہے: (۱)۔ الحُبّ:اعمالِ صالحہ کے ذریعے اللہ تعالیٰ کا قرب اور اُس کی طرف توسل حاصل کیا جائے۔اس کا نام محبت ہے۔ (۲۔۳) ۔الرَّجاء والخوف:اُمید اور خوف ہی حقیقت ِ توحید اور اصلِ اسلام ہیں۔ وَاِذْ قَالَ اِبرَاھِیْمُ لِاَبِیْہِ وَقوَمِہٖٓ اِنَّنِیْ بَرَآئٌ مِّمَّا تَعْبُدُوْنَ اِلَّا الَّذیْ فَطَرَنِیْ فَاِنَّہٗ سَیَھْدِیْنِ وَجَعَلَھَا کَلِمَۃً بَاقِیَۃً فِیْ عَقِبِہٖ لَعَلَّھُمْ یَرْجِعُونَ(الزخرف:۲۶ تا ۲۸)۔ یاد کرو وہ وقت جب ابراہیم علیہ السلام نے اپنے باپ اور اپنی قوم سے کہا تھا کہ ’’تم جن کی بندگی کرتے ہو میرا اُن سے کوئی تعلق نہیں،میرا تعلق صرف اس سے ہے جس نے مجھے پیدا کیا،وہی میری رہنمائی کرے گا۔‘‘ اور ابراہیم ؑ یہی کلام اپنے پیچھے اپنی قوم میں چھوڑ گئے تاکہ وہ اس کی طرف رجوع کریں۔ اِتَخَذُوْا اَحْبَارَھُمْ وَرُھْبَانَھُمْ اَرْبَاباً مِّنْ دُوْنِ اللّٰہِ انہوں نے اپنے علماء اور درویشوں کو اللہ کے سوا اپنا رب بنا لیا ہے۔(التوبۃ:۳۱)۔ صحیح حدیث میں مروی ہے کہ رسُول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا عدی بن حاتم الطائی کے سامنے جب یہ آیت تلاوت فرمائی تو سیدنا عدی رضی اللہ عنہ نے کہا:(ترجمہ)’’یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! ہم ان کی عبادت تو نہیں کیا کرتے تھے۔‘‘
Flag Counter