Maktaba Wahhabi

110 - 154
{قُلْ اِنْ کُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰہَ فَاتَّبِعُوْنِیْ یُحِبِبْکُمُ اللّٰہُ وَیَغْفِرْلَکُمْ ذُنُوْبَکُمْ وَاللّٰہُ غَفُوْرٌرَّحِیْمٌ} (سورۃ آل عمران:۳۱) ’’(اے نبی!) اِن سے کہہ دیں کہ اگر تم (حقیقت میں )اللہ سے محبت کرتے ہوتو میری اتباع کرواللہ تم سے محبت کرے گا اور تمہاری خطاؤں کو معاف کرے گا وہ بڑا معاف کرنے والا اور رحیم ہے ۔‘‘ {وَمَنْ یُّطِعِ اللّٰہَ وَالرَّسُوْلَ فَأُ ولٰٓئِکَ مَعَ الَّذِیْنَ أَنْعَمَ اللّٰہ عَلَیْھِمْ مِّنَ النَّبِیِّیْنَ وَالصِّدِّیْقِیْنَ وَالشُّھَدَآئِ وَالصَّالِحِیْنَ وَحَسُنَ أُولٰٓئِکَ رَفِیْقًا علیہم السلام } (سورۃ انسآء:۶۹) ’’جو لوگ اللہ اور رسول کی اطاعت کرینگے وہ (قیامت کے )دن اُن لوگوں کے ساتھ ہونگے جن پر اللہ نے انعام فرمایا ہے ،یعنی انبیاء،صدیقین،شہدا ء اور صالحین کے ساتھ ،ان لوگوں کی رفاقت کتنی اچھی ہے ۔‘‘ زیادہ ثواب حاصل کرنے کے ارادے سے سنّتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو ناکافی سمجھ کر غیر مسنون طریقوں پر محنت ومشقت کرناآپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ناراضگی کا باعث ہے ۔وہی عمل قابلِ ثواب ہے جو سنّتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے مطابق ہو۔سنّت کا علم ہوجانے کے بعد اس پر عمل نہ کرنے والے لوگوں کو نافرمان کہا ہے اور ساتھ ہی حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ ! ’’تمہارے اعمال کتنے ہی بڑے کیوں نہ ہو جن پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی مہرنہ ہووہ تمہارے منہ پر ماردیئے جائیں گے۔‘‘ حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رمضان میں فتح مکہ والے سال مکہ کے لیے نکلے ،جب کراع غمیم مقام پر پہنچے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ رضی اللہ عنہم سب روزہ سے تھے (دورانِ سفر) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پانی کا پیالہ منگواکر اُونچا کیا یہاں تک کہ تمام لوگوں نے اُس پیالے کو دیکھ لیا پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پی لیا۔بعد میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بتایا گیا کہ کچھ لوگوں نے ابھی بھی روزہ رکھا ہوا ہے ۔اِس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:’’یہ لوگ نا
Flag Counter