Maktaba Wahhabi

51 - 154
حالانکہ لیلۃالقدر کا یقین خود نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو ہی اپنی حیاتِ مبارکہ میں نہیں تھا۔ تو اب یہ تخصیص کیوں ؟کیا نعوذ باللہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم انصاف پسند نہ تھے ؟ ایک شخص نے میرے والد کے پاس80 اشرفیاں امانت رکھیں اور کہا کہ اگر ضرورت پڑے تو خرچ کرلینا ،میں واپس آ کر لے لونگا۔ ان کے جانے کے بعد مدینہ منورہ میں تنگی زیادہ پیش آئی۔ میرے والد نے وہ رقم خرچ کر ڈالی۔ جب وہ واپس آئے تو اپنی رقم طلب کی، والد صاحب نے کل کا وعدہ کر لیا اور رات کو قبر اطہر پر حاضر ہوکر عاجزی کی ، کبھی قبر شریف کے پاس دعا ء کرتے ،کبھی منبر شریف کے پاس، اسی طرح تمام رات گزر گئی، صبح کے قریب حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی قبرِ اطہر کے پاس دعاء کر رہے تھے کہ اندھیرے میں ایک شخص کی آواز سنی وہ کہہ رہا تھا: ابو محمد! یہ لے لو، میرے والد نے ہاتھ بڑھایا تو انہوں نے ایک تھیلی دی جس میں 80اشرفیاں تھیں (وفاء) جماعتِ تبلیغ کے ان پڑھ اور سادہ لوگ اپنی تبلیغی تفریحات و سیا حات میں چھوٹے بچوں اور اہل عیال کو اکیلا چھوڑ کر چلے جاتے ہیں ان کا کوئی پرسانِ حال نہیں ہوتا۔ یہ لوگ طویل مدت تک جو کبھی سالوں پربھی مشتمل ہوتی ہے اپنے بال بچوں کو اکیلا وبے سہارا چھوڑ کر نکل جاتے ہیں ۔ ضرورت پڑنے پر ایسے کئی واقعات بیان کیے جاسکتے ہیں ۔ دوسری طرف حقیقت یہ ہے کہ خواہشِ نفسانی کے فتنے میں خود جماعت ِتبلیغ پڑی ہوئی ہے اس لیے یہ تبلیغ والے اصل علم سے کورے ہیں اور بدعات و خرافات پر ان کا عمل ہے اور یہ صوفیاء کے چار طریقوں کی بدعت میں خود بھی پڑے ہوئے ہیں اور دوسرے لوگوں کو بھی اس بدعت کی دعوت دیتے ہیں یعنی (۱) چشتیہ(۲) قادریہ(۳) سہروردیہ (۴) نقشبندیہ۔ اس جماعت کے امیر انعام الحسن انہی چاروںطریقوں پر لوگوں سے بیعت لیتے ہیں ۔ شیطان کو گناہ سے بدعت زیادہ محبوب ہے اس لیے کہ گناہ سے توبہ کرلی جاتی ہے لیکن بدعت سے توبہ نہیں کی جاتی کیونکہ بدعت پر عمل کرنے والا اس عمل کو ثواب سمجھ کر کرتاہے اور اس عمل کو دین کا حصہ اور جزو سمجھتا ہے اس لیے وہ اس سے توبہ نہیں کرپاتا اور سارے تبلیغی بھائی اسی
Flag Counter