Maktaba Wahhabi

80 - 154
ممانعت نہیں ہے ۔ مگر بیس رکعت مخصوص کرلینا بھی کوئی مسنون فعل نہیں ہے ۔ یہ جو کہا جاتا ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے دور میں بیس تراویح پڑھی جاتی تھیں یہ تو صحیح ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اجتماعی تراویح کی ادائیگی کو پسند فرمایا تھا،مگر بیس رکعت پڑھنے کا حکم بھی حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے دیا ہو یہ بات آج تک کوئی ثابت نہیں کر سکا کیونکہ یہ بات آپ نے فرمائی ہی نہیں تھی۔ اور یہ کہا جائے کہ بیس رکعت پڑھی جاتی تھیں تو مانا جاسکتا ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے دور میں ایسا ہوتا ہو، لیکن اول یہ کہ آپکا حکم نہ تھا اور دوسرا یہ کہ آپکے علم میں بھی تھا یا نہیں یہ بھی معلوم نہ ہو سکا ہے ۔ اور پھر چونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے آٹھ رکعتیں ثابت ہیں لہٰذا حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے اس بات کی امید نہیں کی جاسکتی کہ وہ سنت کی مخالفت کا حکم دیں گے بلکہ ان کا دو صحابہ حضرت ابیّ بن کعب اور حضرت تمیم داری رضی اللہ عنہما کو گیارہ رکعتیں پڑھانے کا حکم دینا صحیح حدیث سے ثابت ہے ۔ (مؤطا) نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے زندگی میں صرف دومرتبہ یہ نماز پڑھائی( اس کا نام تراویح کی نماز نہیں تھا بلکہ قیام اللیل تھا) وہ بھی صرف ۱۱ رکعت پڑھائی تھیں۔ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کے زمانے میں یہ نمازباجماعت نہیں پڑھائی گئی۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانے میں جب صحابہ رضی اللہ عنہم چھوٹی چھوٹی ٹولیوں میں نماز پڑھتے دیکھے گئے تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ سے کہا کہ یہ ایک اچھی بدعت ہے ، اسے جماعت کے ساتھ رمضان میں پڑھنے کا حکم دیا۔ ایک رسالہ میں ترجمہ کرتے وقت اور اس سے بھی پہلے سنن ابی دائودچھاپتے وقت 20راتوں کے بجائے 20رکعتیں لکھ دیااور اسی پر عمل ہونا شروع ہوگیا۔[1]لیکن یہ عمل جن کے نام سے شروع ہوا یعنی حضرت عمر رضی اللہ عنہ کہ ان کے زمانے میں 20 رکعتوں کا حکم دیا گیا یہ سراسر بے بنیاد ہے اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے یہ نماز خود بھی جماعت پڑھی ہو اس کا کہیں بھی ثبوت نہیں ملتا۔ حنفی محدّث شیخ عبد الحق دہلوی (فتح سِرالمنّان صفحہ ۲۲۷ میں ) فرماتے ہیں کہ آج کل پڑھی
Flag Counter