Maktaba Wahhabi

101 - 559
پڑھنے کا اہتمام کرے۔ اس کا یہ مطلب نہیں کہ بلاوجہ جماعت کے بغیر اکیلے نماز پڑھنا صحیح ہے، بلکہ واجب کی فضیلت دوسرے واجب کے مقابلہ میں زیادہ ہے۔ ایک اور حدیث میں ہے: ’’جماعت کی نماز اکیلے شخص کی نماز سے پچیس درجے زیادہ فضیلت رکھتی ہے۔‘‘[1] نماز پڑھنے والوں کے اخلاص، تقویٰ اور خشوع و خضوع کے تفاوت کی وجہ سے ثواب میں کمی بیشی ہوتی رہتی ہے۔ یعنی درجات کا تفاوت، اختلافِ احوال پر مبنی ہے۔ درجات کا یہ تفاوت مسجد کے دور اور قریب ہونے کے اعتبار سے بھی ہو سکتا ہے۔ کیوں کہ جتنی مسجد دور ہوگی، اس میں نماز پڑھنے کے لیے جانا زیادہ ثواب کا باعث ہے۔ محدثین نے درجات کے تفاوت کی یہ وجہ بھی بیان کی ہے کہ ہر نماز میں پچیس اور فجر و عصر میں ستائیس درجے ہوں گے، کیوں کہ ان دونوں نمازوں میں فرشتے حاضر ہوتے ہیں۔ یہ تفاوت نمازیوں کے قلیل و کثیر ہونے کے پیش نظر بھی ہو سکتا ہے۔ یعنی اگر نمازی کم ہیں تو پچیس درجے اور اگر زیادہ تعداد ہے تو ستائیس درجے زیادہ ثواب ہوگا۔ یہ بھی ممکن ہے کہ یہ تفاوت سری اور جہری نمازوں کے لحاظ سے ہو یعنی سری نمازوں (ظہر و عصر) میں پچیس درجے اور جہری نمازوں (مغرب، عشاء اور فجر) میں ستائیس درجات کی برتری ہو۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ ابتدائی طور پر پچیس درجات کا بیان ہوا ہو پھر اللہ تعالیٰ نے اپنی رحمت سے درجات کا اضافہ کر کے ستائیس درجے کر دیا ہو۔ واللہ اعلم نماز باجماعت میں فضیلت کی وجوہات کیا ہیں؟ یہ تو اللہ تعالیٰ ہی بہتر جانتے ہیں، لیکن یہ بات اپنی جگہ پر حقیقت ہے کہ نماز باجماعت کے اہتمام میں زیادہ مشقت ہوتی ہے، اس لیے اس کی فضیلت بھی زیادہ رکھی گئی ہے۔ محدثین کرام نے بیان کیا ہے کہ نماز باجماعت کی ادائیگی میں ایسی ستائیس فضیلتیں پائی جاتی ہیں جن کی فضیلت کے متعلق الگ الگ احادیث مروی ہیں، ان خصلتوں کی تفصیل یہ ہے: ۱: نماز باجماعت ادا کرنے کی نیت سے اذان کا جواب دینا۔ ۲: مسجد میں اول وقت پہنچنے کے لیے جلدی کرنا۔ ۳: مسجد کی طرف سکون و وقار سے جانا۔ ۴: دعا پڑھتے ہوئے مسجد میں داخل ہونا۔ ۵: مسجد میں پہنچ کر تحیۃ المسجد ادا کرنا۔ ۶: نماز باجماعت کا انتظار کرنا۔ ۷: فرشتوں کا اس کے لیے دعائے رحمت کرنا۔ ۸: فرشتوں کا اللہ تعالیٰ کے حضور پہنچ کر نمازی کے لیے گواہی دینا۔
Flag Counter