Maktaba Wahhabi

103 - 559
﴿كُلُوْا وَ اشْرَبُوْا حَتّٰى يَتَبَيَّنَ لَكُمُ الْخَيْطُ الْاَبْيَضُ مِنَ الْخَيْطِ الْاَسْوَدِ مِنَ الْفَجْرِ﴾[1] ’’کھاؤ اور پیو، تاآنکہ فجر کے وقت سفید دھاری کالی دھاری سے واضح طور پر نمایاں ہو جائے۔‘‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک میں دو مؤذن تھے۔ سیدنا بلال رضی اللہ عنہ سحری کی اذان دیتے اور سیدنا ابن ام مکتوم رضی اللہ عنہ فجر کی اذان دیتے تھے۔ حدیث میں اس امر کی وضاحت ہے کہ سیدنا ابن ام مکتوم رضی اللہ عنہ نابیناد آدمی تھے، وہ اس وقت اذان نہیں دیتے تھے تاآنکہ ان سے کہا جاتا کہ صبح ہوگئی، صبح ہوگئی۔[2] قرآن کریم کے مطابق سپیدہ سحر کے نمایاں ہونے پر اذان فجر دی جاتی ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بات کو ہاتھ کے اشارے سے واضح کیا ہے کہ سپیدہ سحر وہ نہیں جو اس طرح لمبی ہوتی ہے، پھر آپ نے ہاتھ اوپر اٹھا کر بتلایا کہ یہ صبح کاذب ہے، پھر ایک ہاتھ کو دوسرے ہاتھ سے جدا کر کے دائیں بائیں کھینچا کہ یہ صبح صادق ہے۔[3] ایک روایت میں راوی حدیث زہیر نے اس کی مزید وضاحت فرمائی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی شہادت کی انگلیوں کو ایک دوسری کے اوپر رکھا، پھر انہیں دائیں بائیں پھیلا دیا۔[4] اس کا مطلب یہ ہے کہ مشرقی افق کے دائیں بائیں دونوں گوشوں میں روشنی پھیل جائے تو صبح ہو جاتی ہے۔ ایک دوسری حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی وضاحت ایک دوسرے انداز سے کی کہ فجر کی دو اقسام ہیں: ایک وہ صبح ہے جو بھیڑیے کی دم کی طرح بالکل سیدھی آسمان میں اوپر چڑھتی معلوم ہوتی ہے، اس میں نماز فجر پڑھنا جائز نہیں ہوتا۔ البتہ یہ سحری تناول کرنے کو حرام نہیں کرتی۔ دوسری وہ جو آسمان کے کناروں میں دائیں بائیں پھیل جاتی ہے، یہ روزے دار کے لیے کھانے کو حرام کر دیتی ہے اور اس میں نماز فجر ادا کرنا جائز اور حلال ہوتا ہے۔[5] ان روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ اذان فجر کا وقت یہ ہے کہ جب سپیدہ سحر نمایاں ہو کر مشرقی افق کے دائیں بائیں پھیل جائے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلے پہلے اذان فجر کے لیے سیدنا بلال رضی اللہ عنہ کی ڈیوٹی لگائی تھی۔ چنانچہ ایک صحابیہ انیسہ بنت خبیب رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ ’’میرا مکان مدینہ میں سب سے اونچا تھا، سیدنا بلال رضی اللہ عنہ میرے مکان کی چھت پر چڑھ جاتے اور طلوع فجر کو دیکھتے رہتے، جب فجر طلوع ہو جاتی تو انگڑائی لیتے اور اذان کہنا شروع کر دیتے۔‘‘[6] لیکن بعض اوقات سیدنا بلال رضی اللہ عنہ غلبہ نیند کی وجہ سے اذان فجر کہہ دیتے، جس کی بعد میں تلافی کرنا پڑتی۔[7] اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فجر کی اذان کے لیے سیدنا ابن ام مکتوم رضی اللہ عنہ کو تعینات فرمایا۔ چونکہ وہ نابینا تھے، اس لیے وہ اس
Flag Counter