Maktaba Wahhabi

162 - 559
کے عوض فروخت کرے، کیوں کہ اپنے صدقے کو واپس لینا اس طرح ہے جیسا کہ کتا قے کر کے چاٹتا ہے۔[1] اس حدیث سے معلوم ہوا کہ صدقہ و خیرات کی ہوئی چیز سے خود استفادہ کرنا ناجائز ہے، مصارف زکوٰۃ کی تعیین خود قرآن کریم نے بیان کی ہے، مال زکوٰۃ کو انہیں مصارف ثمانیہ میں خرچ کرنا چاہیے، اس سلسلہ میں بہت احتیاط کی ضرورت ہے۔ صورت مسؤلہ میں سائل نے اپنے گھر میں ایک لائبریری قائم کی ہے اور اس میں اپنی زکوٰۃ او ر فطرانے سے کتب خرید کر رکھی جاتی ہیں، یہ صرف غرباء اور مساکین کا حق ہے، مال زکوٰۃ انہی پر خرچ ہونا چاہیے۔ حدیث میں ہے کہ پانچ صورتوں کے علاوہ کسی غنی کے لیے صدقہ حلال نہیں۔ ٭ جو اللہ کی راہ میں غازی اور مجاہد ہو۔ ٭ صدقات اکٹھا کرنے پر مامور ہو۔ ٭ چٹی بھرنے والا ہو۔ ٭ اپنے مال سے صدقہ کی چیز خریدنے والا ہو۔ ٭ وہ آدمی کہ کوئی مسکین اس کا ہمسایہ ہو، اس مسکین کو صدقہ دیا گیا ہو تو اس نے کسی غنی کو ہدیہ دیا ہو۔[2] ان احادیث و آثار کا تقاضا ہے کہ انسان کسی بھی طریقہ سے اپنی زکوٰۃ اور فطرانے کو اپنے مصرف میں لانے کی کوشش نہ کرے۔ صورت مسؤلہ میں سائل کو چاہیے کہ اگر وہ لائبریری سے استفادہ کرنا چاہتا ہے تو وہ اپنے حلال پاکیزہ مال سے کتب خریدے جو مال زکوٰۃ سے نہ ہو۔ ساری جائیداد صدقہ کرنا سوال: میرے بھائی بہت پارسا اور نیک انسان تھے، وہ بیمار ہوئے تو انہوں نے اپنی ساری جائیداد جو ایک مکان کی شکل میں تھی، مسجد کو دے دی، تاکہ اسے عورتوں کے لیے جائے نماز کے طور پر استعمال کیا جائے۔ کیا ایسا کرنا جائز ہے؟ کتاب و سنت کی روشنی میں وضاحت کریں۔ جواب: اللہ تعالیٰ نے انسان کو خود مختار بنا کر دنیا میں بھیجا ہے، جس کا مطلب یہ ہے کہ وہ شریعت کے دائرہ میں رہتے ہوئے اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کو جیسے چاہے استعمال کر سکتا ہے، مال و جائیداد بھی اللہ تعالیٰ کی ایک نعمت ہے، اس میں بھی تصرف کرنے کا اسے پورا پورا حق ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے: ’’ہر مالدار اپنے مال میں تصرف کرنے کا زیادہ حق رکھتا ہے۔‘‘[3]
Flag Counter