Maktaba Wahhabi

197 - 559
والا لوٹ جائے اور سونے والا متنبہ ہو جائے۔‘‘[1] اس کا مطلب یہ ہے کہ پہلی اذان تہجد کے لیے نہیں ہوتی تھی بلکہ تہجد گزار حضرات کو گھر واپس بھیجنے کے لیے دی جاتی تھی تاکہ وہ نماز فجر کی تیاری کریں اور اگرروزہ رکھنا ہے تو سحری تناول کریں۔ ہمارے ہاں اس اذان کا نام اذان تہجد غلط مشہور ہو گیا ہے، چنانچہ ایک روایت میں مزید وضاحت ہے: ’’بلال رضی اللہ عنہ رات میں اذان کہتے ہیں، لہٰذا تم سحری کھاؤ پیؤ حتی کہ ابن ام مکتوم رضی اللہ عنہ اذان دیں۔ یہ نابینا شخص تھے اور اس وقت تک اذان نہ کہتے تھے جب تک انہیں بتایا نہ جاتا کہ صبح ہوگئی ہے، صبح ہوگئی ہے۔‘‘[2] ایک روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’تم میں سے کسی کو بلال رضی اللہ عنہ کی اذان سحری کے متعلق دھوکے میں مبتلا نہ کرے۔ ( کہ وہ رک جائے اور سحری نہ کھائے)‘‘ [3] طلوع فجر سے قبل اذان دینا مستحب ہے۔ حافظ ابن قیم رحمہ اللہ نے اس کی مشروعیت اور اس کے استحباب کو پر زور طریقے سے ثابت کیا ہے۔[4] کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ صرف رمضان میں سحری کی اذان کا اہتمام ہونا چاہیے، دیگر ایام میں اس کی ضرورت نہیں، لیکن ہمارے رجحان کے مطابق رمضان کے علاوہ دیگر ایام میں بھی اذان اول کا اہتمام کرنا مسنون و مستحب ہے کیوں کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم تقریباً سارا سال ہی وقتاً فوقتاً روزے رکھنے کا اہتمام کرتے تھے۔ اس لیے پورا سال ہی انہیں اس اذان کی ضرورت رہتی تھی۔ رمضان کے علاوہ روزوں کی تفصیل حسب ذیل ہے: ٭ رمضان کے بعد ماہ شوال کے چھ روزے۔ ٭ پورے محرم کے روزوں کو افضل الصیام کہا گیا ہے۔ ٭ ایام بیض یعنی چاند کی ۱۳،۱۴،۱۵ کے روزے۔ ٭ ہر ہفتے سوموار اور جمعرات کے دن کا روزہ۔ ٭ اکثر ماہ شعبان کے روزے بھی مسنون ہیں۔ ٭ ذوالحجہ کے ابتدائی نو دنوں کے روزے۔ ٭ عاشوراء محرم کا روزہ بلکہ دس محرم کے ساتھ نو محرم کا روزہ بھی رکھا جاتا تھا۔ ٭ حجاج کرام کے علاوہ دوسرے حضرات کے لیے یوم عرفہ کا روزہ بھی بہت فضیلت کا باعث ہے۔
Flag Counter