Maktaba Wahhabi

214 - 559
اس تعریف کی بناء پر اگر اعتکاف مسجد میں نہیں تو اس اعتکاف کی کوئی حقیقت نہیں۔ اللہ تعالیٰ نے اعتکاف کے لیے مساجد کا بطور خاص ذکر کیا ہے۔ قرآن مجید میں ہے: ﴿وَ لَا تُبَاشِرُوْہُنَّ وَ اَنْتُمْ عٰکِفُوْنَ فِی الْمَسٰجِدِ﴾[1] ’’اور جب تم مساجد میں اعتکاف بیٹھے ہو تو بیویوں سے مباشرت نہ کرو۔‘‘ آیت کریمہ میں مساجد کا ذکر اس بات کا تقاضا کرتا ہے کہ اعتکاف کے لیے مسجد کا ہونا ضروری ہے، اس بناء پر عورتوں کا گھروں میں اعتکاف کرنا صحیح نہیں۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کا بیان ہے کہ اعتکاف جامع مسجد میں ہونا چاہیے۔[2] سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما اور حضرت حسن بصری رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’اعتکاف اس مسجد میں ہوتا ہے جس میں نماز باجماعت کا اہتمام ہو۔‘‘[3] بلکہ سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما تو بڑی صراحت کے ساتھ فرماتے ہیں: ’’اللہ تعالیٰ کے نزدیک تمام کاموں میں زیادہ غصہ دلانے والے کام بدعات ہیں اور یہ بھی بدعات سے ہے کہ گھر میں مسجد بنا کر اس میں اعتکاف کرنا۔‘‘[4] ان آثار سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ عورتوں کا گھروں میں اعتکاف کرنا صحیح نہیں۔ البتہ مساجد میں ان کے لیے الگ با پردہ معقول بندوبست ہونا چاہیے جہاں مرد و خواتین کا اختلاط نہ ہو۔ اگر مناسب بندوبست نہ ہو تو عورتوں کو چاہیے کہ وہ اس نفلی عبادت کے لیے اپنی عزت و عصمت کو خطرے میں نہ ڈالیں۔ ازواج مطہرات، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات طیبہ میں آپ کے ہمراہ مسجد میں اعتکاف کیا کرتی تھیں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کے بعد بھی یہ سلسلہ جاری رہا۔ جیسا کہ ایک حدیث میں ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد آپ کی بیویوں نے اعتکاف کیا۔[5] اگرچہ اس حدیث میں مسجد کی صراحت نہیں تاہم آثار و قرائن سے پتہ چلتا ہے کہ انہوں نے مسجد میں ہی اعتکاف کیا تھا۔ جیسا کہ درج ذیل حدیث سے معلوم ہوتا ہے: ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اعتکاف کا ارادہ فرمایا، جب آپ اعتکاف کے لیے مسجد میں اپنے خیمہ کی طرف گئے تو دیکھا کہ آپ کی بیویوں نے بھی مسجد نبوی میں اعتکاف کے لیے خیمے لگا رکھے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ دیکھ کر فرمایا: ’’تم نے یہ کام حسن نیت کی بناء پر نہیں بلکہ جذبہ رقابت کی وجہ سے کیا ہے۔‘‘ آپ نے ان سب کے خیمے اکھاڑ دینے کا حکم دیا۔ پھر آپ نے اپنا خیمہ بھی اکھاڑ دیا۔[6]
Flag Counter