Maktaba Wahhabi

227 - 559
جواب: ہمارے لیے ہر قسم کی عبادات میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہی بہترین نمونہ ہیں۔ اپنی طرف سے کسی قسم کی ایجاد گمراہی کا پیش خیمہ ہو سکتی ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا رمضان المبارک کا آخری عشرہ کس طرح گزرتا تھا، اس کے متعلق حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ آپ آخری عشرہ میں اتنی محنت اور مشقت اٹھاتے جتنی دوسرے دنوں میں نہیں اٹھاتے تھے۔[1] اس محنت کی تفصیل ایک دوسری حدیث میں بیان ہوئی ہے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا ہی بیان فرماتی ہیں: ’’جب رمضان کا آخری عشرہ آتا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عبادت کے لیے کمربستہ ہو جاتے، ساری رات عبادت میں گزارتے اور اپنے اہل خانہ کو بھی بیدار رکھتے تھے۔‘‘[2] اس میں کوئی شک نہیں کہ دل میں پاکیزگی اور بالیدگی اس وقت بیدار ہو سکتی ہے جب انسان کا دل مخلوق سے بے پرواہ ہو کر اللہ کی طرف متوجہ ہو۔ کثرت سے کھانے پینے، گفتگو کرنے اورسونے سے دل منتشر اور غافل ہو جاتا ہے۔ ماہِ مبارک میں ان تمام چیزوں پر کنٹرول ہوتا ہے جو قرب الٰہی میں رکاوٹ کا باعث بنتی ہیں۔ اس مہینہ کی خصوصیت یہ ہے کہ اس میں انسان کا دل اللہ کی طرف مائل ہوتا ہے اور اس ذات اقدس کے قرب کو محسوس کرتا ہے۔ ویسے تو سارا مہینہ ہی اللہ عزوجل کی طرف سے خیرات و برکات اور انوار و تجلیات اپنے جلو میں لے کر آتا ہے لیکن اس آخری عشرہ خاص فیوض و برکات کا حامل ہوتا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس آخری عشرہ میں عبادت کے لیے خصوصی اہتمام فرماتے تھے جیسا کہ احادیث بالا میں مذکور ہے اور یہ سب کچھ اجتماعی طور پر نہیں بلکہ انفرادی طور پر ہوتا تھا۔ لیکن بدقسمتی سے ہمارے ہاں اسے اجتماعیت کا رنگ دے دیا گیا ہے، یہی وجہ ہے کہ ہم طاق راتوں میں تقاریر اور دروس کا خصوصی اہتمام کرتے ہیں اور باہر سے علماء کرام کو دعوت دیتے ہیں بلکہ سارا عشرہ ہی بہترین ماکولات اور مشروبات کے دور کے لیے مخصوص کر دیا جاتا ہے۔ حالانکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اسوۂ حسنہ میں ان چیزوں کا دور دور تک کوئی نشان نہیں ملتا۔ ہمیں اس آخری عشرہ کے قیمتی دنوں اور سنہری راتوں کو سو کر یا کھانے پینے یا تقاریر سننے میں ضائع نہیں کرنا چاہیے بلکہ انفرادی عبادت کا اہتمام کرنا چاہیے۔ حدیث میں ہے کہ جب رمضان ختم ہونے میں چند دن باقی رہ جاتے تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم گھر میں ہر فرد کو نیند سے اٹھا دیتے جو قیام کی طاقت رکھتا تھا۔[3] ہمیں اس حدیث کو مدنظر رکھتے ہوئے گھر میں موجود افراد کو اٹھانے کا اہتمام کرنا چاہیے تاکہ وہ اللہ عزوجل کی عبادت میں مصروف ہوں۔ کھانے پینے اور تقاریر کا اہتمام کرنے کی چنداں ضرورت نہیں، ایسے کاموں کے لیے اوربہت مواقع ہیں، ان میں اس کا اہتمام کر لیا جائے۔ واللہ اعلم!
Flag Counter