Maktaba Wahhabi

231 - 559
جواب: میاں بیوی کے تعلقات بہت نزاکت کے حامل ہیں، شریعت نے ان تعلقات میں معمولی رخنہ آنے کی بھی اجازت نہیں دی۔ اس لیے عورت کو پابند کیا ہے کہ وہ نفلی روزے کے لیے اپنے شوہر کی اجازت حاصل کرے کیوں کہ شوہر کو اس سے فائدہ اٹھانے کی کسی وقت بھی ضرورت پیش آ سکتی ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے: ’’کسی عورت کے لیے حلال نہیں کہ وہ اپنے شوہر کی موجودگی میں اس کی اجازت کے بغیر نفلی روزے رکھے۔‘‘[1] ایک روایت میں ہے کہ کوئی عورت اپنے شوہر کی موجودگی میں اس کی اجازت کے بغیر روزہ نہ رکھے۔[2] امام بخاری رحمہ اللہ نے ان احادیث پر بایں الفاظ عنوان قائم کیا ہے: ’’عورت کا خاوند کی اجازت سے نفلی روزہ رکھنا۔‘‘[3] البتہ رمضان کے روزے رکھنے کے لیے اجازت کی چنداں ضرورت نہیں۔ جیسا کہ ایک حدیث میں اس کی صراحت ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’عورت کو روا نہیں کہ اس کا شوہر موجود ہو تو وہ اس کی اجازت کے بغیر روزہ رکھے الایہ کہ رمضان کے روزے ہوں۔‘‘[4] روزے کی حالت میں زوجین کے مابین تعلقات زن و شو قائم نہیں ہو سکتے، علاوہ ازیں بھوک پیاس کی وجہ سے طبیعت میں گرانی سی بھی آ جاتی ہے اور عین فطری بات ہے کہ عام طور پر شوہر ایسی کیفیت گوارا نہیں کرتے اور اس کے نتائج نامناسب بھی ہو سکتے ہیں۔ اس لیے شریعت نے یہ ضابطہ بنایا ہے کہ شوہر کی موجودگی میں بیوی کو چاہیے کہ وہ نفلی روزہ رکھنے کے لیے اپنے شوہر سے اجازت لے، ایسے حالات میں شوہر اپنی بیوی کا روزہ توڑ بھی سکتا ہے۔ جیسا کہ سیدنا صفوان بن معطل رضی اللہ عنہ کی بیوی نے ایک مرتبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے شکایت کی تھی کہ جب میں روزہ رکھتی ہوں تو وہ تڑوا دیتا ہے۔ سیدنا صفوان رضی اللہ عنہ بھی موجود تھے، انہوں نے عرض کیا، یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! اس بیوی کی حالت یہ ہے کہ روزے ہی رکھے جاتی ہے اور میں جوان آدمی ہوں صبر نہیں کر سکتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ ضابطہ بیان فرمایا: ’’کوئی عورت اپنے شوہر کی اجازت کے بغیر روزہ نہ رکھے۔‘‘[5] ان احادیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ بیوی کو شوہر کی تسکین کے لیے انتہائی حساس اور ذمہ دار ہونا چاہیے۔ صورت مسؤلہ میں اگر شوہر ضرورت محسوس کرے تو اپنی بیوی کو نفلی روزہ رکھنے سے منع کر سکتا ہے اور ایسا کرنے سے ان شاء اللہ اسے کوئی گناہ نہیں ہوگا۔ واللہ اعلم!
Flag Counter