Maktaba Wahhabi

248 - 559
قباحت ہو تو اسے فروخت کرنا اور خریدنا جائز نہیں۔ بچوں اور بچیوں کو کھیلنے کا موقع دینا نہ صرف جائز ہے بلکہ ان کا یہ فطری حق ہے جو انہیں ملنا چاہیے، مگر اس بات کا خاص خیال رکھنا چاہیے کہ ان کی تفریحات شرعی مزاج کے خلاف نہ ہوں۔ چنانچہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں: ’’میں گڑیوں کے ساتھ کھیلا کرتی تھی، بسا اوقت اس دوران رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لے آتے اور میرے ہاں محلے کی دوسری بچیاں بھی ہوتیں، جب آپ تشریف لاتے تو وہ چلی جاتیں اور جب آپ تشریف لے جاتے تو وہ کھیلنے کے لیے آ جاتیں۔‘‘[1] ایک روایت میں ہے کہ محلے کی بچیاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھ کر چھپ جاتیں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم انہیں میرے پاس بھیجتے اور وہ میرے ساتھ کھیلتیں۔[2] ایک روایت کے مطابق ان کھلونوں میں ایک گھوڑا بھی تھا جس کے دو پر تھے،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب اس کے متعلق پوچھا تو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہ نے بتایا کہ حضرت سلیمان علیہ السلام کے گھوڑے کے بھی پر تھے، اس جواب سے آپ کو بہت محظوظ ہوئے اور اس قدر ہنسے کہ آپ کی داڑھیں نظر آنے لگیں۔[3] ان احادیث سے بچیوں کے لیے گڑیوں سے کھیلنے کا ثبوت ملتا ہے، اس سے گڑیوں کا بنانا اور انہیں فروخت کرنا بھی جائز معلوم ہوتا ہے لیکن اس سلسلہ میں درج ذیل باتوں کا خیال رکھا جائے: (۱):… بہتر ہے کہ بچیاں خود یا گھر کی خواتین کپڑے یا روئی سے گڈیاں گڈے بنا دیں جیسا کہ عام طور پر پہلے ایسا کرنے کا رواج تھا۔ (۲):… اس میں وہ گڑیاں شامل نہیں جو دورِحاضر میں ترقی یافتہ شکل میں دستیاب ہیں، جو نقل مطابق اصل ہوتی ہیں، ان میں پوری باریکی کے ساتھ تمام خدوخال کے ساتھ انہیں بنایا جاتا ہے۔ وہ قدیم کھلونوں کی طرح محض سرسری سا ڈھانچہ نہیں ہوتا، ترقی یافتہ کھلونوں کی یہ قسم شرعاً ممنوع ہے، اس سے اجتناب کرنا چاہیے۔ (۳):… کچھ مجسمے اور حیوانات کی خوبصورت تصاویر محض نمائش اور آرائش کے لیے گھروں میں رکھی جاتی ہیں یا گاڑی میں آویزاں کی جاتی ہیں، ان کی بھی کسی طرح سے اجازت نہیں دی جا سکتی۔ (۴):… کتوں، بلیوں، بندروں اور دیگر حیوانات کے مجسمے یا ایسی تصاویر جو مشرکانہ تخیلات کے نمائندہ ہوں مثلاً رام چندر کی مورتی وغیرہ تو ان کی خرید و فروخت بھی منع ہے۔ بہر حال بچیوں کی گڑیوں کو بنیاد بنا کر غیر شرعی تصاویر کا جواز انتہائی محل نظر ہے۔ واللہ اعلم!
Flag Counter