Maktaba Wahhabi

268 - 559
جائے، کیا اس قسم کی وصیت جائز ہے اور اس پر عمل کرنے کی شرعی حیثیت کیا ہے؟ جواب: صورت مسؤلہ میں وصیت کے ذریعے جو جائیداد کی تقسیم کی گئی ہے وہ شریعت کے مطابق نہیں، شرعی تقسیم حسب ذیل ہے: ٭ بیوہ کو اولاد کی موجودگی میں 1/8لتا ہے جیسا کہ قرآن مجید میں ہے: ﴿فَاِنْ کَانَ لَکُمْ وَلَدٌ فَلَہُنَّ الثُّمُنُ مِمَّا تَرَکْتُمْ﴾[1] ’’اگر میت کی اولاد ہو تو ان کی (بیویوں) کو آٹھواں حصہ ملے گا۔‘‘ ٭ بیٹیوں کو2/3ملتا ہے کیوں کہ قرآن مجید میں ہے: ﴿فَاِنْ كُنَّ نِسَآءً فَوْقَ اثْنَتَيْنِ فَلَهُنَّ ثُلُثَا مَا تَرَكَ﴾[2] ’’اگر اولاد میں صرف لڑکیاں ہیں (یعنی دو یا) دو سے زیادہ تو کل ترکہ میں سے ان کا دو تہائی ہے۔‘‘ ٭ پوتا عصبہ ہے جو مقررہ حصہ پانے والوں سے بچا ہوا ترکہ لیتا ہے۔ حدیث میں ہے: ’’مقررہ حق حصہ داروں کو دینے کے بعد جو باقی بچے وہ میت کے قریبی رشتہ دار کے لیے ہے۔‘‘[3] مذکورہ تفصیل کے پیش نظر جائیداد کے کل ۲۴ حصے کر لیے جائیں۔ ۳ بیوہ کے لیے، ۸، ۸ دونوں بیٹیوں کے لیے اور باقی ۵ حصے پوتے کو دئیے جائیں۔ قرآن و حدیث کی رو سے اگر وصیت کرنے والا کوئی غلط وصیت کر جائے تو اسے باہمی مل کر درست کیا جا سکتا ہے، اسے جوں کا توں نافذ کرنا جائز نہیں۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿فَمَنْ خَافَ مِنْ مُّوْصٍ جَنَفًا اَوْ اِثْمًا فَاَصْلَحَ بَیْنَہُمْ فَلَآ اِثْمَ عَلَیْہِ﴾[4] ’’اگر کسی کو وصیت کرنے والے کی طرف (کسی وارث کی) طرفداری یا حق تلفی کا اندیشہ ہو تو اگر وہ (وصیت کو بدل کر) وارثوں میں صلح کرا دے تو اس پر کچھ گناہ نہیں۔‘‘ اس آیت کے پیش نظر ورثاء کو چاہیے کہ وہ غلط وصیت پر عمل کرنے کی بجائے کتاب و سنت کے مطابق متوفی کی جائیداد کو تقسیم کریں اور وصیت میں ترمیم کر کے اسے شریعت کے مطابق کر لیں۔ اس میں اللہ تعالیٰ کے ہاں مواخذہ نہیں ہو گا۔ اس قسم کی وصیت کو آپس میں نزاع کا باعث نہ بنائیں بلکہ محبت اور ہمدردی کے جذبات کے ساتھ جائیداد تقسیم کریں۔ واللہ اعلم!
Flag Counter