Maktaba Wahhabi

324 - 559
البتہ کتاب و سنت کی رو سے ایک مجلس میں دی ہوئی بیک وقت تین طلاقیں دینے سے ایک ہی رجعی طلاق واقع ہوتی ہے بشرطیکہ طلاق دینے کا پہلا یا دوسرا موقع ہو۔ دلائل حسب ذیل ہیں: ۱: سیّدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد نبوت، سیّدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کے زمانہ خلافت اور سیّدنا عمر رضی اللہ عنہ کے ابتدائی دو سالہ دور حکومت میں تین طلاقیں، ایک طلاق کا حکم رکھتی تھیں، لیکن کثرت طلاق کی وجہ سے سیّدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ لوگوں نے اس معاملہ میں جلدی کی جس میں ان کے لیے نرمی اور آسانی تھی، اگر میں اسے نافذ کردوں تو بہتر ہے۔ اس کے بعد انہوں نے اسے نافذ کردیا۔ [1] تاہم سیّدنا عمر رضی اللہ عنہ کا یہ اقدام شرعی نہیں بلکہ تعزیری تھا، کیونکہ آپ رضی اللہ عنہ عمر کے آخری حصہ میں اپنے اس فیصلہ پر اظہار افسوس فرمایا کرتے تھے، جیسا کہ حافظ ابن قیم رحمہ اللہ نے محدث ابوبکر الاسماعیلی کی تصنیف مسند عمر کے حوالہ سے لکھا ہے۔[2] ۲: سیّدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ سیّدنا رکانہ بن عبد یزد رضی اللہ عنہ نے اپنی بیوی کو ایک ہی مجلس میں تین طلاقیں دے دیں لیکن اس کے بعد بہت افسردہ ہوئے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے پوچھا کہ تم نے اسے طلاق کس طرح دی تھی؟ عرض کیا تین مرتبہ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دوبارہ پوچھا: ’’ایک ہی مجلس میں تین طلاقیں دی تھیں؟‘‘ عرض کیا ہاں! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’پھر یہ ایک ہی طلاق ہوئی ہے، اگر تم چاہو رو رجوع کرسکتے ہو۔‘‘ راوی حدیث سیّدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کے بیان کے مطابق انہوں نے رجوع کرکے اپنا گھر آباد کرلیا تھا۔[3] اس حدیث کے متعلق حافظ ابن حجر رحمہ اللہ لکھتے ہیں: ’’ہذا الحدیث نص فی المسألۃ، لا یقبل التأویل.‘‘ [4] ’’یہ حدیث مسئلہ طلاق ثلاثہ کے متعلق ایک فیصلہ کن نص قطعی کی حیثیت رکھتی ہے جس کی اور کوئی تاویل نہیں کی جاسکتی۔‘‘ پاکستانی علماء احناف نے بھی دلائل کے پیش نظر ان احادیث کے مطابق فتویٰ دیا ہے، چنانچہ مولانا پیر کرم شاہ، مولانا عبدالحلیم قاسمی، مولانا حسین علی واں بھچراں، مولانا احمد الرحمٰن اسلام آباد اور پروفیسر محمد اکرم ورک برسر فہرست ہیں، ان کے فتاویٰ کی تفصیل ’’ایک مجلس میں تین طلاق‘‘ نامی کتاب میں دیکھی جاسکتی ہے۔ بہرحال ان حقائق کی روشنی میں ایک باغیرت مسلمان کے لیے گنجائش ہے کہ اگر اس نے ایک ہی مجلس میں تین طلاق دی ہیں تو وہ دوران عدت بلا تجدید نکاح رجوع کرسکتا ہے اور اگر عدت گزر چکی ہے تو بھی تجدید نکاح سے اپنا گھر آباد کیا جاسکتا ہے۔ قرآن و حدیث کا یہی فیصلہ ہے، اس کے علاوہ ہمارے ہاں رائج الوقت عائلی قوانین اور دیگر اسلامی ممالک میں بھی یہی فتویٰ دیا جاتا ہے۔ واللہ اعلم بالصواب!
Flag Counter