Maktaba Wahhabi

342 - 559
٭ بیوی کے ساس اور سسر کے ساتھ معاملات خراب ہوں اور وہ ان کے ساتھ حکمت کے ساتھ پیش نہ آ سکے۔ اس طرح کئی دوسرے اسباب بھی ہو سکتے ہیں۔ اہل علم نے طلاق کو پانچ اقسام میں تقسیم کیا ہے: ٭ جائز… یہ اس وقت ہے جب اس کی ضرورت پیش آئے۔ ٭ مکروہ… وہ طلاق ہے جو بلاوجہ دی جائے۔ ٭ مستحب… وہ ہے جو بیوی کے طلب کرنے پر دی جائے۔ ٭ واجب… اس وقت ہے جب طلاق نہ دینے میں بیوی کا نقصان ہو۔ ٭ حرام… اس وقت ہے جب شریعت کی خلاف ورزی کرتے ہوئے دی جائے، جیسا کہ دوران حیض طلاق دینا۔ بہرحال طلاق دینا جائز امر ہے، لیکن یہ جائز نہیں کہ خاوند اپنی بیوی کو کسی معقول وجہ کے بغیر طلاق دے۔ واللہ اعلم! طلاق دینے کا حق صرف مرد کو ہے سوال: میری شادی دس سال قبل ہوئی، کسی وجہ سے میرا اپنے سسر سے اختلاف ہوا تو میرے سسر نے اپنے بیٹے کی طرف سے مجھے طلاق دے دی، کیا شوہر کے علاوہ کسی بھی دوسرے مرد کو طلاق دینے کا حق ہے؟ وضاحت فرما دیں۔ جواب: طلاق میں اصل تو یہی ہے کہ اس کا اختیار شوہر کے ہاتھ میں ہے۔ جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿يٰۤاَيُّهَا النَّبِيُّ اِذَا طَلَّقْتُمُ النِّسَآءَ فَطَلِّقُوْهُنَّ لِعِدَّتِهِنَّ ﴾[1] ’’اے نبی! (اپنی امت سے کہہ دو) جب تم عورتوں کو طلاق دو تو انہیں ان کی عدت میں طلاق دو۔‘‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے: ’’طلاق صرف اس کا حق ہے جس نے پنڈلی کو تھام رکھا ہے۔‘‘[2] اس سے مراد شوہر ہے، اللہ کی عظیم حکمت ہے کہ اس نے یہ معاملہ خاوند کے سپرد کیا ہے۔ اس کی وجوہات حسب ذیل معلوم ہوتی ہیں: ٭ مرد قوت عقل اور معاملات کے نتائج تک رسائی حاصل کرنے میں کامل دسترس رکھتا ہے، جبکہ عورت ناقص عقل اور وسعت ادراک میں کامل نہیں۔ ٭ مرد اخراجات کا ذمہ دار ہے اور اپنے خاندان کی کفالت کرنے والا ہے، اس بناء پر طلاق دینے کا حق بھی اسے دیا گیا ہے۔ ٭ مہر کی ادائیگی شوہر کے ذمے ہے، اس لیے طلاق کا حق دار بھی اسی کو ٹھہرایا گیا ہے تاکہ عورت طمع اور لالچ میں نہ پڑ جائے۔ اللہ تعالیٰ کے درج ذیل فرمان میں اسی بات کی طرف اشارہ کیا گیا ہے: ﴿اَلرِّجَالُ قَوّٰمُوْنَ عَلَى النِّسَآءِ بِمَا فَضَّلَ اللّٰهُ بَعْضَهُمْ عَلٰى بَعْضٍ وَّ بِمَاۤ اَنْفَقُوْا ﴾[3]
Flag Counter