Maktaba Wahhabi

447 - 559
اس سلسلہ میں آپ کا ارشاد گرامی بھی کتب احادیث میں مروی ہے۔ آپ نے فرمایا: ’’تم انبیاء کے ناموں پر اپنے بچوں کے نام رکھا کرو۔‘‘ [1] حضرت سعید بن مسیب رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک پسندیدہ نام انبیاء کرام رضی اللہ عنہم کے نام ہیں۔[2] حافظ ابن قیم رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ جب حضرات انبیاء کرام تمام انسانوں کے سردار اور اخلاق و کردار کے اعلیٰ نمونہ ہیں اور ان کے نام بھی بہترین ہیں۔ اس لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی امت کو انبیاء علیہم السلام کے نام تجویز کرنے کی ترغیب دی ہے۔[3] رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اہل کتاب کے متعلق فرمایا: ’’بلاشبہ وہ لوگ اپنے انبیاء اور اپنے سے پہلے لوگوں کے ناموں پر نام رکھتے تھے۔‘‘[4] کچھ ایسے نام ہیں جو اسلامی تہذیب کے خلاف ہیں، ان سے اجتناب کرنا چاہیے، برے ناموں کے اصول حسب ذیل ہیں: ٍ۱۔ توحید کے منافی: ایسے ناجائز کام ہیں، جن میں شرک کا شائبہ اور ان میں غیر اللہ کے لیے بندگی کا اظہار ہو جیسے عبد العزی، عبد الکعبہ وغیرہ۔ ۲۔ کسی بزرگ کی طرف منسوب نام: کچھ لوگ جو اولاد سے محروم ہوتے ہیں وہ نذر مانتے ہیں کہ ہمارے ہاں بچہ پیدا ہوا تو ہم بزرگوں کی طرف منسوب کریں گے، ایسا نام بھی حرام ہے، جیسے پیراں دتا، غوث بخش اور غلام فرید وغیرہ۔ ۳۔ تزکیہ نفس اور ذاتی نیکوکاری کی نمائش: ایسے نام جن میں ذاتی ستائش یا تزکیہ نفس یا برتری کا معنی نمایاں ہو، ایسے ناموں سے احتراز کرنا چاہیے، جیسے برہ، متقی وغیرہ۔ ۴۔ نافرمانی کا معنی نمایاں ہو: ایسے نام جن میں بغاوت، سرکشی اور نافرمانی کے معنی ہوں، ان کا انتخاب بھی مکروہ ہے جیسے عاص اور عاصیہ وغیرہ۔ بہرحال ایسے ناموں سے گریز کیا جائے، جو مزاج توحید کے خلاف ہوں، جن سے تذلیل اور غیر سنجیدگی مترشح ہو، جو مذاق کا ذریعہ، ان سے بدخلقی اور بدمزاجی کی بو آتی ہو، یا انسانی عظمت و وقار کے خلاف ہوں۔ ایسے نام بھی ممنو ع ہیں جو یہود و نصاریٰ کے ناموں سے مشابہت رکھتے ہوں اور وہ بے معنی ہوں۔ کافر بادشاہوں کے نام رکھنا بھی حرام ہیں مثلاً چنگیز خان، نوشیرواں، تیمور اور کسریٰ وغیرہ۔ اسی طرح معاشرہ میں برے اور کرپٹ لوگوں کے ناموں سے اجتناب کیا جائے، اگر کوئی دانستہ یا نادانستہ طور پر ناپسندیدہ نام رکھ لیتا ہے تو اسے اچھے نام سے بدل دینا ضروری ہے۔ جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم برا نام بدل دیتے تھے۔ جیسا کہ درج ذیل
Flag Counter