Maktaba Wahhabi

458 - 559
قسم لے کر فیصلہ کر دیا جائے، قسم لینے کے لیے نہ کسی خاص وقت کا انتظار کیا جائے اور نہ ہی کسی مقدس جگہ کے انتخاب کا اہتمام کیا جائے۔ امام بخاری رحمہ اللہ کا بھی یہی موقف ہے۔ چنانچہ انہوں نے ایک عنوان بایں الفاظ قائم کیا ہے۔ ’’مدعی علیہ اسی جگہ قسم اٹھائے جہاں اس پر قسم واجب ہوئی تھی، کسی بھی دوسری جگہ منتقل نہ کیا جائے۔‘‘[1] امام بخاری رحمہ اللہ نے دلیل کے طور پر سیدنا زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کا ایک واقعہ نقل کیا ہے کہ ان کا اور عبد اللہ بن مطیع کے درمیان ایک مکان کے متعلق جھگڑا تھا، مروان بن الحکم نے سیدنا زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کو منبر پر آ کر قسم اٹھانے کے متعلق کہا تو انہوں نے منبر پر آنے سے انکار کر دیا، اور فرمایا کہ’’ میں اس کے لیے اپنی جگہ پر ہی قسم اٹھاؤں گا۔ ‘‘ پھر انہوں نے وہیں کھڑے کھڑے قسم اٹھانا شروع کر دی۔[2] نیز آپ نے سیدنا اشعث بن قیس رضی اللہ عنہ کے ایک واقعہ سے بھی استدلال کیا ہے۔ جبکہ ان کا ایک یہودی سے کسی چیز کے متعلق جھگڑاتھا، وہ اس مقدمے کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لے گئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اپنے دعوے کو ثابت کرنے کے لیے دو گواہ لاؤ یا پھر یہودی قسم اٹھائے گا۔‘‘[3] رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہودی کے قسم لینے کے بارے میں کسی خاص جگہ کی تخصیص نہیں فرمائی اور نہ ہی آپ نے یہودی سے تورات ہاتھ میں لے کر قسم اٹھانے کا اہتمام کیا۔ البتہ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ قسم میں شدت پیدا کرنے کے لیے کسی خاص جگہ مثلاً مدینہ میں منبر نبوی، مکہ میں حجر اسود اور مقام ابراہیم کے درمیان اور دیگر مقامات میں مسجد کے اندر یا کسی خاص وقت جیسا کہ عصر کے بعد یا جمعہ کے دن قسم لینے کا اہتمام کیا جا سکتا ہے۔ جمہور اہل علم کا یہی موقف ہے۔[4] لیکن امام بخاری رحمہ اللہ کا موقف دلائل کے اعتبار سے زیادہ مضبوط ہے اورہمارا بھی یہی رحجان ہے کہ قسم لینے کے لیے وضوء کرانا، پھر مسجد میں لے جانا محض تکلف ہے، اگر کوئی سچا ہے تو ہر جگہ پر اللہ سے ڈرے گا اور اگر جھوٹا ہے تو وہ مسجد کے تقدس کی بھی پرواہ نہیں کرے گا۔ اسی طرح رقم لینے یا دینے کا معاملہ ہے، اس کے لیے شرعی طریقہ تو یہ ہے کہ مدعی اپنے دعویٰ کے لیے گواہ پیش کرے، بصورت دیگر مدعی علیہ سے قسم لے کر معاملہ ختم کر دیا جائے۔ اس کے لیے رقم کو قرآن پر رکھنا کہ اگر کوئی سچا ہے تو قرآن پر رکھی ہوئی رقم کو اٹھا لے، ہمارے نزدیک یہ تکلفات ہیں، قرآن کریم اس لیے نہیں اترا کہ قسموں اور رقموں میں استعمال کیا جائے۔ ہمارے نزدیک ایسا کرنے سے قرآن کا تقدس مجروح ہوتا ہے۔ واللہ اعلم!
Flag Counter