Maktaba Wahhabi

483 - 559
کی مشابہت اختیار کرتا ہے وہ قیامت کے دن انہی میں سے اٹھایا جائے گا۔‘‘[1] اس حدیث کے پیش نظر مسلمانوں کو غیر مسلموں کا لباس، وضع قطع اور ان کی تہذیب و ثقافت اختیار کرنا حرام ہے۔ اپنے خاوند کے لیے زیب و زینت کے طور پر اسے اختیار کرنا بھی محل نظر ہے کیوں کہ خواتین اسلام نے ایسے فیشن اختیار نہیں کیے ہیں اور ان کی شرعاً اجازت نہیں ہے خواہ وہ اپنے خاوند کو خوش کرنے کے لیے ہی کیوں نہ ہوں۔ دوسروں کو دکھانے اور خوبصورت نظر آنے کے لیے بھی ایسا کرنا درست نہیں۔ اس سلسلہ میں ازواج مطہرات کے جس عمل کا حوالہ دیا جاتا ہے اس کی وضاحت کرنا بھی ضروری ہے۔ چنانچہ حضرت ابو سلمہ بن عبدالرحمن، سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہما سے غسل جنابت کے متعلق بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ’’ازواج مطہرات اپنے بالوں سے (کچھ کاٹ) لیتی تھیں حتی کہ وہ وفرہ کی مانند ہوتے تھے۔‘‘[2] اس حدیث میں لفظ ’’یأخذن‘‘ استعمال ہوا ہے، اس کا معنی ضروری نہیں کہ کاٹنا ہی ہو، بلکہ مسائل طہارت کی مناسبت سے اس کا معنی اپنے بالوں کے خاص انداز میں جوڑا بنانا ہے، عورتیں عام طور پر غسل کے موقع پر ایسا کرتی ہیں، اس وقت بال وفرہ کی شکل میں نظر آتے ہیں۔ کیوں کہ حدیث میں کاف تشبیہ کے طور پر استعمال ہوا ہے، جس کا مطلب یہ ہے کہ بال وفرہ نہیں تھے بلکہ دیکھنے میں وفرہ معلوم ہوتے تھے۔ واضح رہے کہ ’’وفرہ‘‘ وہ بال ہوتے ہیں جو کانوں تک آجائیں، بالوں کی اس قسم کے اوصاف مردوں کے لیے استعمال ہوتے ہیں، عورتوں کے لیے یہ اوصاف نہیں ہوتے۔ اگر اس لفظ کا معنی کاٹنا بھی کر لیا جائے تو بھی فیشن کے طور پر ایسا کرنا ثابت نہیں ہوتا کیوں کہ ازواج مطہرات نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد اپنے بالوں کو کانوں تک کاٹا، انہوں نے سادگی اور ترک زینت کے طور پر ایسا کیا تھا تاکہ کلی طور پر نکاح کے اسباب و دواعی کو ختم کر دیا جائے۔ کیوں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد ازواج مطہرات کو آگے عقد ثانی کرنے کی اجازت نہ تھی جیسا کہ قرآن کریم میں اس کی صراحت ہے۔[3] بہر حال اس حدیث سے نوجوان عورتوں کے بالوں کا فیشن کشید کرنا کئی ایک طرح سے محل نظر ہے: ٭ اس کی بنیاد اظہار زیب و زینت اور بے پردگی پر ہے۔ ٭ اس سے مقصود مغربی عورتوں کی نقالی ہے۔ ٭ یہ کام مردوں سے کرایا جاتا ہے جو سراسر بے حیائی اور بے غیرتی ہے۔ ہم اس کی کسی طور پر اجازت دینے کے روادار نہیں ہیں۔ کیوں کہ اس کی آڑ میں مغربی تہذیب و ثقافت کو پھلنے پھولنے کا موقع دینا ہے۔ اس حدیث میں صرف اس قدر ثابت ہوتا ہے کہ ’’وہ عورت جس کا خاوند فوت ہو گیا اور وہ شادی کروانے سے
Flag Counter