Maktaba Wahhabi

503 - 559
جواب: خاوند کے لیے ضروری ہے کہ وہ اہل خانہ سے اخلاق فاضلہ کا مظاہرہ کرے اور حسن معاشرت کو اپنائے۔ جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿وَ عَاشِرُوْہُنَّ بِالْمَعْرُوْفِ﴾[1] ’’اور ان بیویوں سے حسن معاشرت اختیار کرو۔‘‘ اس سلسلہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا واضح ارشاد ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ‘‘تم میں سے بہترین وہ شخص ہے جو اپنے گھر والوں سے اچھا سلوک کرتا ہے اور میں اپنے اہل خانہ کے لیے تم سب سے بہتر ہوں۔‘‘[2] نیز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ ایمان والوں میں کامل ترین مومن وہ ہے جو اخلاق و کردار میں سب سے اچھا ہو اور تم میں سے اچھے وہ ہیں جو اپنی بیویوں کے لیے اچھے ہیں۔‘‘[3] ایسے حالات میں ہم سائلہ کو نصیحت کرتے ہیں کہ وہ خاوند کی زیادتی پر صبر کرے اور اپنے گھر کو کسی حالت میں نہ چھوڑے۔ امید ہے کہ اللہ تعالیٰ حالات درست کر دے گا، جیسا کہ اس نے اہل ایمان سے وعدہ کر رکھا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿وَ اصْبِرُوْا اِنَّ اللّٰہَ مَعَ الصّٰبِرِیْنَ﴾[4] ’’اور صبر کرو! بے شک اللہ تعالیٰ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔‘‘ ایسے حالات کے متعلق اللہ تعالیٰ نے بایں الفاط رہنمائی فرمائی ہے: ﴿وَمَنْ یَّتَّقِ اللّٰہَ یَجْعَلْ لَّہٗ مَخْرَجًا﴾[5] ’’جو شخص اللہ تعالیٰ سے ڈرتا ہے اللہ اس کے لیے مشکلات سے نکلنے کی کوئی راہ پیدا کر دے گا۔‘‘ میاں بیوی کے بہتر تعلقات کے نتیجے میں بچے بھی اچھے اخلاق اور اچھی عادات سیکھتے ہیں اور بڑے ہو کر معاشرے کے لیے بلکہ خود والدین کے لیے بھی رحمت ثابت ہوتے ہیں۔ اس کے برعکس اگر میاں بیوی کے تعلقات خوشگوار نہیں ہیں توبچوں پر اس کا برا اثر ہوتا ہے اور بری عادات سیکھ کر والدین کے لیے مصیبت کا باعث ہوتے ہیں اور معاشرے میں بھی وہ فتنہ و فساد پیدا کرتے ہیں۔ اس بناء پر ہم میاں کو بھی نصیحت کرتے ہیں کہ وہ اپنے رویے پر نظر ثانی کرے اور اپنے گھریلو حالات کو پر سکون گزارنے کی کوشش کرے۔ واللہ اعلم!
Flag Counter