Maktaba Wahhabi

553 - 559
ہوں اور جو شخص کسی بندے سے محبت کرے تو صرف اللہ عزوجل کے لیے کرے اور جو شخص کفر سے نکلنے کے بعد کفر کی طرف لوٹنے کو اس طرح برا سمجھے گویا اسے آگ میں ڈالا جا رہا ہے۔‘‘[1] حلاوت ایمان کے متعلق ایک اور حدیث بایں الفاظ مروی ہے: ’’ اس شخص نے ایمان کا مزہ چکھ لیا جو اللہ تعالیٰ سے ازروئے رب ہونے کے راضی ہو گیا، جس نے اسلام کو بحیثیت دین کے پسند کر لیا اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو بحیثیت رسول کے تسلیم کر لیا۔‘‘[2] واضح رہے کہ یہ نعمت اس خوش نصیب کو ملتی ہے جس کے ایمان نے اس کے یقین کو طاقتور کردیا ہو اور اس کا نفس مطمئن ہو گیا ہو۔نیز اس کا سینہ کھل گیا ہو اور ایمان و یقین اس کے گوشت و پوست میں سرایت کر چکا ہو۔ اس قسم کے باکمال اور خوش نصیب لوگ حلاوت ایمانی سے ہمکنار ہوتے ہیں۔ سائلہ کو چاہیے کہ وہ اپنے آپ کو ٹٹولے کہ اس کا ایمان کس نوعیت کا ہے۔ اس کے علاوہ اپنے خاوند کے تعلقات پر بھی نظر ثانی کرے کیوں کہ اس کی اطاعت و فرمانبرداری کو اس حلاوت میں بہت دخل ہے۔ جیسا کہ حدیث میں ہے، سیدنا معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’کوئی عورت، حلاوت ایمان سے ہمکنار نہیں ہو سکتی حتی کہ وہ اپنے خاوند کے حقوق کی پاسداری کرے۔‘‘[3] سیدنا عمران بن حصین رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میری پھوپھی ایک مرتبہ اپنی کسی ضرورت کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئیں، جب وہ فارغ ہو گئیں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں فرمایا: ’’کیا تو شادی شدہ ہے؟‘‘ انہوں نے عرض کیا جی ہاں۔ آپ نے فرمایا: ’’تو اس کی خدمت گزاری کس طرح کرتی ہے؟‘‘ عرض کیا: میں اس کے متعلق کوئی کوتاہی نہیں کرتی الا یہ کہ میں عاجز ہو جاؤں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’تم تو اس کے مقابلہ میں اپنی قدر و قیمت کو پہچان سکتی ہو، کیوں کہ وہ تیرے لیے جنت بھی ہے اور دوزخ بھی۔‘‘[4] اس کا مطلب یہ ہے کہ خاوند کی خدمت اور اطاعت گزاری تیرے لیے جنت اور اس کے حقوق سے روگردانی اور بغاوت تیرے لیے جہنم کا سامان ہے۔ ایک دوسری حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خاوند کی حیثیت کو بایں الفاظ نمایاں کیا ہے۔ ’’اگر اللہ تعالیٰ کے علاوہ کسی
Flag Counter