Maktaba Wahhabi

58 - 559
صورت جائز ہے؟ جواب: ہمارے معاشرہ میں لواحقین کی طرف سے میت کے ایصال ثواب کے لیے برادری کو دعوت دی جاتی ہے اور ان کے لیے کھانے کا اہتمام کیا جاتا ہے، حالانکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کرام اسے انتہائی ناپسند کرتے تھے۔ چنانچہ سیدنا جریر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: ’’اہل میت کے ہاں اجتماع اور کھانے کا اہتمام ہمارے ہاں نوحہ شمار کیا جاتا تھا (جو شریعت میں جائز نہیں)۔ [1] اس قسم کی دعوت کو ایصال ثواب کا نام دے کر رواج دیا جاتا ہے جس کی شریعت میں کوئی دلیل نہیں۔ اس سلسلہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے کہ جب انسان فوت ہو جاتا ہے تو تین صورتوں کے علاوہ اس کے تمام اعمال منقطع ہو جاتے ہیں، وہ تین چیزیں یہ ہیں: ٭ جاری رہنے والا صدقہ۔ ٭ وہ علم جس سے نفع اٹھایا جاتا رہے۔ ٭ نیک اولاد جو اس کے لیے دعا کرتی رہے۔[2] جاری رہنے والے صدقہ سے مراد وہ اشیاء ہیں جو لوگوں کے لیے خیر کا باعث بنی رہیں، جب تک یہ موجود رہیں گی میت کو ان کا ثواب پہنچتا رہے گا۔ مثلاً مسجد، مدرسہ، مسافر خانہ یا کوئی اور رفاہ عامہ کے کام کر جانا۔ اسی طرح کسی ہسپتال یا ڈسپنسری کی تعمیر بھی اس میں شامل ہے، پانی پلانے کا اہتمام بھی صدقہ جاریہ ہے۔ لوگوں کو فائدہ دینے والے علم سے یہ مراد ہے کہ قرآن وحدیث کی تعلیم، دینی اصلاح کے لیے وعظ ونصیحت کا بندوبست یا کوئی بھی دین کی نشر و اشاعت کے لیے کام کرنا۔ مثلاً دینی کتب تالیف کرنا، کیسٹ یا سی ڈی میں تقاریر محفوظ کر جانا یا کوئی بھی سائنسی ایجاد جس سے لوگ استفادہ کریں، نیز دینی شاگرد بھی بہترین صدقہ جاریہ ہیں۔ ہمارے نزدیک اپنی اولاد کی شرعی بنیادوں پر تربیت سب سے بڑھ کر صدقہ جاریہ ہے جو میت کے لیے دعا مغفرت کرتی رہے۔ چنانچہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں: ’’اللہ تعالیٰ جنت میں نیک آدمی کا درجہ بلند فرمائے گا، آدمی عرض کرے گا یا اللہ! یہ درجہ مجھے کیسے حاصل ہوا؟‘‘ اللہ تعالیٰ فرمائیں گے: تیرے بیٹے نے تیرے لیے دعائے مغفرت کی تھی۔‘‘[3] ویسے بھی اولاد کے نیک اعمال کا ثواب از خود والدین کو پہنچتا رہتا ہے اگرچہ اولاد ایصال ثواب کی نیت نہ بھی کرے، اس کا ذکر متعدد احادیث میں ہے۔ ان کے علاوہ درج ذیل صورتیں بھی ایصال ثواب کی ہیں: ٭ میت کے لیے دعا مغفرت کرنا خواہ کوئی بھی ہو۔
Flag Counter