Maktaba Wahhabi

108 - 331
سے روایت کرتے ہیں۔سیدنا مسیب رضی اللہ عنہ اپنے باپ سیدنا حُزن رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ جب اُبوطالب کی وفات کے آثار دکھائی دیئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اُس کے پاس تشریف لے گئے اُس وقت ابوجہل اور عبداللہ بن ابو امیہ بھی وہاں بیٹھے تھے۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:چچاجان! کلمہ لَا اِلٰہ اِلَّا الله کا اقرار کر لو،میں تمہارے لئے یہی کلمہ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں بطور دلیل پیش کروں گا۔ابوجہل اور عبداللہ بن امیہ بولے ’’کیا عبدالمطلب کے مذہب کو چھوڑ دو گے‘‘؟ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم باربار کلمہ شہادت کی ترغیب دیتے تھے اور وہ دونوں ابوطالب کو اپنے مذہب پر قائم رہنے پر اصرار کرتے تھے۔ابوطالب کی آخری بات یہ تھی کہ:’’وہ عبدالمطلب کے دین پر ہی قائم رہے گا‘‘ اور اُس نے لَا اِلٰہ اِلاَّ الله کے اقرار سے اِنکار کر دیا۔رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اُس سے فرمایا کہ جب تک مجھے روک نہ دیا گیا میں تمہارے لئے مغفرت کی دعا کرتا رہوں گا۔اس پر اللہ کریم نے یہ آیت نازل فرمائی کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اور اُن لوگوں کو جو ایمان لائے ہیں،زیبا نہیں ہے کہ مشرکوں کے لئے مغفرت کی دعا کریں چاہے وہ رِشتہ دار ہی کیوں نہ ہوں۔رب ذوالجلال نے ابوطالب کے بارے میں یہ آیت نازل فرمائی کہ:اے نبی ! تم جسے چاہو ہدایت نہیں دے سکتے مگر اللہ جسے چاہتا ہے ہدایت دیتا ہے اور وہ اُن لوگوں کو خوب جانتا ہے جو ہدایت قبول کرنے والے ہیں۔ رحمۃ للعٰلمین صلی اللہ علیہ وسلم نے ابوطالب کو کلمہ توحید کے اقرار کرنے کی ترغیب دی لیکن ابوطالب نے انکار کر دیا کیونکہ اس کو معلوم تھا کہ علم و یقین کے ساتھ لَا اِلٰہ اِلاَّ الله کے اقرار کا مطلب یہ ہے کہ شرک اور مشرکین سے کلیۃً اظہارِ براء ت کی جائے۔اور تمام عبادات پورے اخلاص کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے لئے ادا کی جائیں اور یہ کہ اسلام کے دائرہ میں داخل ہوا جائے۔اس کی وجہ یہ ہے کہ مشرکین لَا اِلٰہ اِلاَّ الله کے مطلب کو خوب سمجھتے تھے۔اس وقت مکہ المکرمہ میں دو ہی قسم کے لوگ تھے،مسلمان اور کافر۔اس کلمے کا اقرار وہی شخص کرتا تھا جو شرک سے بالکل بیزار ہو جاتا اور قطع تعلق کر لیتا تھا۔ یہ واقعہ اس بات کی دلیل ہے کہ اعمال کا دارومدار خاتمے پر ہے کیونکہ اگر ابوطالب خلوص دل سے اور ان تقاضوں کو ملحوظ رکھتے ہوئے جو نفی و اثبات کی صورت میں لَا اِلٰہ اِلاَّ الله سے وابستہ ہیں یہ کلمہ پڑھ لیتا تو وہ لازماً اس کے لئے سود مند ثابت ہوتا۔ قرآن کریم میں ایک مقام پر اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:(ترجمہ)’’اور اسی طرح ہم نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے کسی بستی میں کوئی پیغمبر نہیں بھیجا مگر اُس کے خوشحال لوگوں نے یہی کہا کہ ہم نے اپنے باپ دادوں کو
Flag Counter