Maktaba Wahhabi

136 - 154
(۵) ہر ایک امام، مولوی، خطیب جس نام سے بھی پکارلیں۔ اپنی بیوی کو نکاح میں ہندو دھرم کے رسم ورواج سے قبول کرتا ہے ۔ ہندؤں کی تالی مسلمانوں کا لچھا جس کے بغیر نکاح ادھورا رہتا ہے ، یہاں تک کہ نکاح ہوتا ہی نہیں ۔ اِن سے پوچھو کہ اسلام میں اس کا کیا مقام ہے ؟ آج تک کسی امام نے اس بارے میں خطبہ نہیں دیا۔ (۶) اِن سب سے بڑھکر ایک اور بڑی لعنت بڑوں کے پیر چھونے کی ہے اُنہوں نے اس لعنت کو اس لیے بحال رکھا ہواہے کہ اُنکا وقار بھی بحال رہے اور ہر ایک سے یہ اپنے پیر بھی پکڑواتے رہیں ۔ اگر لوگ والدین کے پیر چھونا چھوڑ دیں تو اِنکے پیر چھونے والے باقی نہ رہیں گے ۔ اِن سے پوچھیں یہ کہاں کا اسلام ہے اور اسلام میں اس کا کیا مقام ہے ؟ یہ لَت آگے بڑھکر مسلمانوں کو کُفر یہ عمل کرنے تک لے گئی، وہ قبروں اور مزاروں کے بھی پیر چھوتے یا پائوںپڑتے ہیں ۔ کسی امام میں دم ہے کہ وہ اِن بھولے مسلمانوں کے عقیدے کو درست کرے اور ان مشرکانہ حرکات سے نجات دلائے ؟ (۷) ہرجگہ جگہ نِت نئی رَسومات ان مولویوں نے گھڑ رکھی ہیں ۔ کلکتہ میں مسلمان عورت اپنی مانگ میں سندھور بھرتی ہے ؟ کیا یہ ہندئوں سے لی ہوئی رسم نہیں ہے ؟ (۸) ہندوئوں میں ستی کی رسم ہوا کرتی تھی اور اَبھی بھی جاری ہے ۔ لیکن مسلمانوں میں اس طرح کا ظلم ایک نئے اندازمیں ڈھایا جاتا ہے ۔ شوہر کے مرنے پر اُسے غسل دیا جاتا ہے ۔ میّت کو گھر سے لیکر نکلنے کے بعد محلے کی ساری عورتیں ملکر بیوہ کو اُس کی لحد کے پاس لیکر جاتی ہیں اور اُسکا مہر ظلم سے معاف کراتی ہیں اور ساتھ ہی اُسکی چوڑیاں توڑتوڑ کر اُس کی لحد میں دفن کی جاتی ہیں ۔ ہندوؤں کی یہ رسم زمانۂ دراز سے مسلمانوں میں چلی آرہی ہے ۔ کیا اس سے یہ ظاہر نہیں ہوتا کہ شکم پرور مُلاؤں کا علم بھی اُن ہی لحدوں میں دفن ہو چکا ہے ۔ ورنہ کیا مجال کہ یہ رسم مسلمانوں میں قاے م رہتی۔
Flag Counter