Maktaba Wahhabi

26 - 154
قارئین !جس وقت میں بنگلور میں تھا اس وقت عصر 5-30پر ختم ہوتی تھی اور 6-45 پر مغرب کی آذان ہوتی تھی تو انکے درمیان کا وقت صرف 1گھنٹہ 15منٹ ہو تا ہے ، مان لیں کے 2گھنٹے بھی مل جائیں تو کیا اتنے وقت میں قرآن ختم کیا جاسکتا ہے ۔ اسطرح کی جھوٹی باتیں ان بزرگان ِ دین کے سر تھوپ کر یہ علماء کیا ثابت کرنا چاہتے ہیں ؟ اﷲ ہی بہتر جانتا ہے ۔ اسی طرح اوپر ذکر کی گئی کیسٹ’’تبلیغی جماعت کے بارے میں اعتراضات اور ان کے جوابات‘‘ میں انظر شاہ قاسمی صاحب نے موضوع سے متعلق علمی و عقلی دلائل دینے کے بجائے چند واقعات بیان کرکے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ اﷲ چاہے تو بڑے مقام والے کو نہ دے اور چھوٹے مقام والے کو دے دے اور اس سلسلہ میں انہوں نے جو واقعات بیان کیے ہیں ان میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی وہ کرامت ہے کہ جب انہوں نے خطبۂ جمعہ کے دوران ہی ہزاروں میل دور سے پکار کر لوگوں کو خطرہ سے آگاہ کیا تھا اور لوگوں نے آپ کی آواز بھی سنی تھی۔ اسی طرح حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے بارے میں بھی فرماتے ہیں کہ اﷲتعالیٰ نے ا نہیں اولاد نہیں دی جبکہ حضرت مریم علیہا السلام کو بن شوہر کے اولاد دے دی۔ پھر کہا کہ حضرت یعقوب علیہ السلام باپ ہونے کے باوجود وہ معجزات حاصل نہیں کر سکے جو انکے بیٹے یعنی حضرت یوسف علیہ السلام کو مل گئے ،( یعنی کپڑا چومنے سے بینائی کا لوٹ آنا وغیرہ)۔ اور حضرت سلیمان علیہ السلام کا وا قعہ بھی پیش کیا کہ ایک جن کو اتنا علم و طاقت دی کہ وہ ملکہ سبا (بلقیس) کا تخت پلک جھپکنے کی مہلت میں لے آیا حالانکہ یہ غلط بیانی ہے ۔ ملکہ سبا کا تخت جن نہیں ایک بشر لایا تھا۔ دیکھیئے سورۃ النمل آیت: ۴۰، تفسیر احسن البیان ۔اگر جن تخت لائے تو کون سا کمال ہے ، جنوںمیں اڑنے کی طاقت ہے ، یہاں کمال انسان کا ہے ۔ مولانا انظرشاہ اپنے بزرگوں کا کمال دکھانے میں حضرت سلیمان علیہ السلام کے امتی کا کارنامہ بھول گئے ۔اور بتایاحضرت سلیمان علیہ السلام کو یہ طاقت نہ تھی۔لیکن
Flag Counter