Maktaba Wahhabi

107 - 382
مخصوص افراد پر اطلاق ہوتا ہے، ولایت کا استحقاق صرف باپ کے عصبہ نسبی کو ہے ، باپ دادا ، اوپر تک، بیٹا پوتا نیچے تک اور بھائی وغیرہ۔ لڑکی کا نکاح والد کی اجازت کے بغیر نہ کیا جائے؟: سوال :بندہ کی لڑکی کا نکاح میرے بھائی اور میرا بیٹا میری رضامندی کے بغیر میرے بھتیجے کو دینا چاہتے ہیں جب کہ میں سخت ناراض ہوں، اس لیے کہ وہ لڑکا ڈاڑھی منڈا ہے۔ اس کے علاوہ مجھ سے دیندار اور عالم، حافظ رشتہ مانگتے ہیں۔ میں ان کو دینا چاہتا ہوں۔ اگر میرے برادران اور بیٹا میری عدم موجودگی میں اور ناراضگی کے باوجود عدالت میں یا اور کہیں نکاح کردیں تو اس نکاح کے بارے میں شرع شریف کیا حکم فرماتی ہے۔ مطلع فرمادیں۔ اور مشتہر فرمائیں۔ اللہ پاک آپ کو جزائے خیر دے۔ (سائل: عطا اللہ بھٹی ، فیصل آباد) (۲۷ دسمبر ۱۹۹۶ء) جواب :بلاشبہ جملہ اولیاء میں سے والد کا حق فائق ہے۔ اس کے فرائض اور واجبات سے ہے کہ اپنی لڑکی کا رشتہ ایسے شخص سے کرے جو خلیق اور متشرع ہو ، چاہے وہ قریبی ہو یا غیر، دیگر اولیاء اگر اپنی ضد کی بناء پر اس نکاح کا انعقاد کرلیتے ہیں تو فعل ہذا ناقابلِ اعتبار ہے۔اسلامی عدالت کا فرض ہے حالات و واقعات کا جائزہ لیے بغیر نکاح منعقد نہ کرے۔ واضح ہو کہ ولی اَقرب اگر کسی وجہ سے نااہل قرار پائے تو پھر حق ِ ولایت بعید کی طرف منتقل ہو جاتا ہے۔ ولی کے بغیر نکاح کا حکم: سوال : مکرمی مفتی صاحب! گذارش ہے کہ میں بذریعہ ماڈل ٹاؤن کچری ۹۷/ ۳/ ۱۱ کو ’’مسماۃ نیلم دختر منظور حسین‘‘ کے ساتھ نکاح پڑھایا۔ جس میں جانبین میں سے کسی کا کوئی عزیز شامل نہ ہوا۔ میرے اور میرے والد کے مابین شادی کی وجہ سے اختلاف ہو گیا۔ میں نے ان کے کہنے پر اپنی بیوی کو طلاق دے دی جو میرے پاس موجود ہے۔ اپنی بیوی کو بھیجی نہیں۔ جبکہ میں اور میری بیوی راضی خوشی زندگی بسر کرنا چاہتے ہیں۔ اس وقت میری ایک بچی ہے جس کی عمر ڈیڑھ ماہ ہے۔ میرے والد صاحب کہہ رہے ہیں طلاق ہو گئی ہے۔ قرآن و حدیث کی روشنی میں ہماری رہنمائی فرمائی جائے۔ (ملک محمد ساجد اعوان۔ غازی روڈ۔ لاہور) (یکم دسمبر ۲۰۰۰ء) جواب : صورتِ سوال سے ظاہر ہے کہ موجودہ نکاح ولی کی اجازت کے بغیر پڑھا گیا ہے۔ جب کہ حدیث میں ہے: ((لَا نِکَاحَ اِلَّا بِوَلِیٍّ)) [1] ’’ولی کی اجازت کے بغیر نکاح نہیں۔‘‘
Flag Counter