Maktaba Wahhabi

352 - 382
ان دو طریق کے علاوہ شریعت میں تیسرا طریق نہیں اور اگر کوئی تیسری راہ اختیار کرتا ہے تو وہ ظالم ٹھہرتا ہے جس طرح کہ مدعیہ کے بیان سے واضح ہے اور مدعی علیہ کی عدمِ حاضری کے باوجود عدالت کا فیصلہ فوری نافذ العمل ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ابوسفیان کی عدم موجودگی میں اس کے مال سے ہندہ کے لیے اخذِ نفقہ کا فیصلہ صادر فرمایا تھا۔[1] اس حدیث سے معلوم ہوا خاوند کی غیر حاضری کی صورت میں بھی عدالت مخصوص حالات میں یک طرفہ بیان پر فیصلہ صادر کر سکتی ہے۔ عدالت کا یکطرفہ بیان کی بنیاد پر طلاق کی ڈگری جاری کرنا: سوال :عدالتی طریقۂ کار کے مطابق دو تین مرتبہ عدالت کی طرف سے بلائے جانے کے باوجود مدعا علیہ حاضر نہ ہوا تو عدالت نے ہمیں طلاق کی ڈگری جاری کردی ہے۔ کیااس صورت میں طلاق اللہ اور رسول کے حکم کے مطابق ہوگئی ہے۔ مہربانی فرما کر اس کا مفصل جواب شائع کردیں ا ور مفتی صاحب سے استدعاء ہے کہ اس مسئلہ کے جواب میں قرآن و حدیث سے بھرپور استدلال کریں۔ (آپ کا نیاز مند فتح محمدولد محمد ہدایت چک ۷۴۷ گ ب کمالیہ ٹوبہ ٹیک سنگھ) (۲۴ جون ۱۹۹۴ء) جواب :ظاہر ہے بذریعہ عدالت جو طلاق ہوگی زوجین کے نزاع اور اختلاف کی بناء پر ہی ہو گی۔ مسلمان جج کا فیصلہ بموجب آیت ۳۵ ’’سورۃ النساء‘‘ مؤثر ہو گا۔ واضح ہو کہ اس کے بعد خاوند کا حق رجوع بھی معدوم ہو جاتا ہے کیوں کہ طلاق ہذا بائن ہے۔ قاضی ابوبکر ابن العربی فرماتے ہیں: (( فَکُلُّ طَلَاقٍ یَنْفَذُہُ الْحَاکِمُ فَہُوَ بَائِنٌ ۔)) [2] ’’نیز ملاحظہ ہو فتح الباری:(۹/۴۰۳) نیل المرام، نواب صدیق حسن خان، زیر آیت مشار الیہ۔ عدالتی خلع کے بعد نکاح: سوال : ایک عورت عرصہ آٹھ سال سے اپنے ماں باپ کے گھر میں ہے۔ اور عدالت سے ۹۷/۷/۲۴ سے تنسیخ نکاح کا فیصلہ بھی اپنے حق کروا رکھا ہے۔ اب چونکہ معززین کے تعاون سے فریقینِ صلح پر آمادہ ہوئے ہیں۔ آپ قرآن و سنت کی روشنی میں نکاح کرنے کے بارے میں رہنمائی فرمائیں۔ (نوٹ) خاوند کی رضا مندی کے بغیر، عدالت نے مدعی کے حق میں فیصلہ کردیا۔ ( سائل: شوکت علی۔ کامونکی) (۲ جون۲۰۰۰ء)
Flag Counter