Maktaba Wahhabi

121 - 382
کرائی اور اس دوران کئی مرتبہ باہم بوس و کنار بھی ہوتے رہے۔ چونکہ نیت نکاح کی تھی۔ لڑکی نے کہا کہ میری والدہ کو راضی کرلو۔ یہ نوجوان اس کی والدہ ( جو رشتہ دار بھی ہے) کے پاس گیا اور اس کی منت سماجت کی۔اس لڑکی کی والدہ ماننے کو تیار ہوئی۔ اس دوران اپنی خیر خواہی جتلانے کے لیے اپنی ہونے والی ساس کے ساتھ کئی دفعہ بغل گیر بھی ہوا اور اس کو بوسہ بھی دیا۔ چونکہ لڑکا رشتہ دار تھا۔ وہ اپنی آنٹی(ہونے والی ساس) کے ساتھ بہت فری بھی تھا۔ اس کی آنٹی بھی اس کو پسند کرتی تھی لیکن کچھ فیملی پرابلم کی وجہ سے نہ مان رہی تھی۔ بالآخر اس کی آنٹی مان گئی اور اس نوجوان کا اس کی لڑکی سے نکاح ہو گیا۔ اب مسئلہ یہ ہے کہ کسی صاحب نے یہ کہہ دیا ہے کہ اس لڑکی کی ماں کوKiss کیا تھا تو پتہ نہیں تمہارا نکاح قائم بھی ہوا یا نہیں۔ اس نے کہا وہ تو اپنی خیر خواہی بتانے کے لیے کیا تھا۔ اب وہ نوجوان اس بات پر بہت پریشان رہتا ہے۔ بزرگوں سے مسئلہ یہ سنا ہے کہ لڑکی خدانخواستہ اگر اسی شخص سے غلط کاری بھی کرچکی ہے تو اس کا نکاح اسی سے کردینا چاہیے اور اسی عمل سے اس کی ماں حرام ہو جاتی ہے نہ کہ وہ لڑکی۔ ’’بہشتی زیور‘‘ سے ماخوذ ہے کہ اگر شہوت اور جوانی کی خواہش کے ساتھ کسی عورت کو مرد ہاتھ لگائے تو اس عورت کی ماں اور اس کی اولاد اس مرد پر حرام ہو جاتی ہے۔ نکاح نہیں ہوتا۔ کچھ اس طرح کا ہی لکھا ہوا ہے پورا پورا یاد نہیں رہا۔ ارشاد فرمائیں کہ اس جوڑے کا نکاح صحیح ہوا ہے یا کچھ اور حکم ہے ؟ (سائل: محمد اکرم) (۲ فروری ۱۹۹۶ء) جواب : صورتِ مرقومہ میں مسئول عنہ کا نکاح مذکورہ لڑکی سے درست ہے اور اس کی ماں کے ساتھ لڑکے نے جس جس غلط کام کا ارتکاب کیا ہے یا اس لڑکی سے قبل از نکاح جو حرکاتِ شنیعہ کرتا رہا ہے۔ اس بارے میں رب کے حضور صدقِ دل سے معافی کی التجا کرنی چاہیے۔ اہل علم کے راجح اور محقق مسلک کے مطابق مسّ بالشہوت(شہوت سے چھونا) سے حرمت مصاہرت ثابت نہیں ہوتی۔ چنانچہ ’’سنن دارقطنی‘‘ میں حدیث ہے: (( لَا یَفْسُدُ الْحَلَالُ بِالْحَرَامِ ۔)) [1] یعنی ’’ حرام کے ارتکاب سے حلال شئے فاسد نہیں ہوتی۔‘‘ نیز امام ’’دارقطنی‘‘ ابن عمر رضی اللہ عنہما سے بسندہٖ مرفوعاً بیان کرتے ہیں:
Flag Counter