Maktaba Wahhabi

214 - 382
جواب :مذکورہ بالا صورت میں عورت کو علیحدگی کا اختیار ہے۔ اس لیے کہ شوہر نامرد ہے۔ ازدواجی حقوق ادا کرنے سے قاصر ہے۔ لہٰذا عورت بذریعہ عدالت یا پنچایت وغیرہ نکاح فسخ کراکے جہاں چاہے باجازت ولی نکاح کرسکتی ہے۔ مسئلہ خیارِ بلوغت کیا بچپن میں کیا گیا نکاح بلوغت کے بعد فسخ ہو سکتا ہے ؟ سوال : ایک لڑکی کا نکاح اسی کے والدین نے بچپن میں اس کے چچا زاد کے ساتھ پڑھا دیا۔ اب بالغ ہونے پر لڑکی اس سے انکاری ہے۔ کیا لڑکی کے والدین اس کی شادی دوسری جگہ کر سکتے ہیں یا اس کا پہلا نکاح ہی باقی رہے گا؟ دوسرے نکاح کی صورت میں طلاق لینا ضروری ہے؟ (سائل ) (۸ فروری ۲۰۰۲ء) جواب : صحیح حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’بیوہ کا نکاح اس کے مشورے کے بغیر نہ کیا جائے اور کنواری کا نکاح اس کے اِذْن کے بغیر نہ کیا جائے۔‘‘ صحابہ رضی اللہ عنہم نے عرض کیا: اس کا اِذْن کس طرح ہو گا؟ یعنی وہ تو شرم و حیاء سے بولتی نہیں۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’ خاموش رہنا(ہی) اس کا اِذْن ہے۔‘‘ [1] اس حدیث سے ثابت ہوتا ہے کہ لڑکی بالغہ ہو کر نکاح فسخ کرا سکتی ہے کیونکہ نکاح اس کے اِذْن سے ہونا چاہیے جب کہ بچپن میں وہ اس قابل نہیں تھی کہ اس سے اِذن لیا جاتا۔ ضروری ہے کہ سنِ شعور میں وہ اپنا حق استعمال کر سکے۔ اس کی صورت یہ ہے کہ لڑکی کو فسخ ِ نکاح کا اختیار دیا جائے ، علیحدگی بذریعہ عدالت یا پنچائت ہو سکتی ہے۔ مجاز عدالت کو چاہیے کہ وہ لڑکے سے طلاق لے۔ اگر وہ اس کے لیے تیار نہ ہو تو موجودہ مصالحتی کونسل خود فیصلہ کردے۔ یاد رہے کہ پہلا نکاح علیحدگی کے فیصلے تک قائم رہے گا۔ کیا بچپن میں کیا ہوا نکاح بلوغت کے وقت مسترد ہو سکتا ہے ؟ سوال : راقم نے اپنی بیٹی کا نکاح بچپن میں فتح شیر نامی لڑکے سے کردیا تھا۔ اس وقت میری بچی کی عمر تقریباً تین ماہ اور لڑکے کی عمر تقریباً آٹھ ماہ تھی۔ جب لڑکا پرورش پاتا ہوا تقریباً اٹھارہ سال کی عمر کو پہنچ گیا۔ اس وقت تک اس کا دماغی توازن درست نہ رہا۔ اس کو طہارت و غلاظت میں کوئی تمیز نہ تھی۔ میری بیٹی نے بھی شعور بلوغ کو پہنچتے ہی اس لڑکے سے اپنے نکاح کو مسترد کردیا۔ میں نے مجبور ہو کر لڑکے کے والدین سے رابطہ کیا کہ وہ میری بیٹی کو طلاق دے
Flag Counter