Maktaba Wahhabi

379 - 382
رمشہ، رحیم یار خان) (۱۲ مارچ ۲۰۰۴ء) جواب :راجح مسلک کے مطابق بیک وقت تین طلاقیں ایک رجعی طلاق واقعی ہوتی ہے۔ جیسا کہ ’’صحیح مسلم‘‘ میں حضرت ابن عباس سے مروی ہے۔ سورۃ البقرۃ کی آیت نمبر ۲۲۸ کے مطابق دورانِ عدت خاوند رجوع کر سکتا ہے۔ نیز طلاق شوہر کا حق ہے جسے وہ متعدد اسباب کی بنا پر استعمال کر سکتا ہے لیکن صرف ایک طلاق دینی چاہیے، تین نہیں کیونکہ مقصد کے حصول کے لیے ایک ہی کافی ہے۔۔ طلاق دینے کی صورت میں قرآنِ مجید کی ہدایت یہی ہے کہ شوہر اپنی بیوی کو گھر سے نہ نکالے اور نہ خود ہی نکلے۔ (سورۃ الطلاق:۱) لہٰذا اُسے گھر سے نکالنا نہیں چاہیے تھا یہ ظلم و زیادتی کے زمرے میں آتا ہے۔ شوہر کو اس پر توبہ اور ندامت کا اظہار کرنا چاہیے۔ رجوع کے لیے کفار ے کی ضرورت نہیں، خاوند دورانِ عدت جب چاہے رجوع کر سکتا ہے ، خواہ عورت کی مرضی نہ بھی ہو۔ چنانچہ قرآن میں ہے: ﴿ وَ بُعُوْلَتُہُنَّ اَحَقُّ بِرَدِّہِنَّ فِیْ ذٰلِکَ اِنْ اَرَادُوْٓااِصْلَاحًا﴾ (البقرۃ:۲۸۸) ’’ اور ان کے خاوند اگر پھر موافقت چاہیں تو اس( مدت) میں وہ ان کو اپنی زوجیت میں لینے کے پورے حق دار ہیں۔‘‘ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں: (( وَقَدْ أَجْمَعُوا عَلَی أَنَّ الْحُرَّ إِذَا طَلَّقَ الْحُرَّۃَ بَعْدَ الدُّخُولِ بِہَا تَطْلِیقَۃً أَوْ تَطْلِیقَتَیْنِ فَہُوَ أَحَقُّ بِرَجْعَتِہَا وَلَوْ کَرِہَتِ الْمَرْأَۃُ ذَلِکَ فَإِنْ لَمْ یُرَاجِعْ حَتَّی انْقَضَتِ الْعِدَّۃُ فَتَصِیرُ أَجْنَبِیَّۃً فَلَا تَحِلُّ لَہُ إِلَّا بِنِکَاحٍ مُسْتَأْنَفٍ )) [1] ’’علمائے امت کا اجماع ہے کہ آزاد مرد جب آزاد عورت کو مباشرت کے بعد ایک یا دو طلاقیں دے دے تو دوانِ عدت وہ عورت کی ناپسندیدگی کے باوجود رجوع کر سکتا ہے۔ اگر رجوع کیے بغیر عدت گزر جائے تو وہ اُس کے لیے اجنبی ہو جائے گی، نئے نکاح کے بغیر حلال نہیں ہوگی۔‘‘ شوہر کو چاہیے کہ وہ حسن معاشرت کا مظاہرہ کرے، اُسے تو بیوی کی معمولی باتوں پر دَرگزر کرنی چاہیے چہ جائے کہ وہ ادوسروں کی غلطیوں اور لڑائی جھگڑوں کی سزا بھی بیوی کو دینا شروع کردے۔ یہ بات یقینا ظلم میں آتی ہے جس کا انجام خطرناک ہو سکتا ہے۔
Flag Counter