Maktaba Wahhabi

97 - 382
علم نہیں تھا اور نہ ہی وہ اس پر کسی صورت بھی رضا مند تھے۔ نکاح نامہ میں لڑکی کے ولی کی حیثیت سے باپ، بھائی، چچا جیسے اقرباء کسی کا نام نہیں تھا۔ بلکہ لڑکے کا باپ بقول اس کے، نکاح میں شریک نہیں تھا۔ ولی کی جگہ کسی غیر معروف( بغیر مکمل پتہ کے) شخص کے دستخط معلوم ہوتے ہیں۔ لڑکے کی عاداتِ بد کی وجہ سے میاں بیوی میں نباہ نہ ہو سکا اور قریباً ڈیڑھ ماہ بعد ہی لڑکی نے طلاق کا مطالبہ کیا اور طلاق(بیک وقت تین طلاق) لے کر والدین کے گھر آگئی۔ ۱۔اب سوال یہ ہے کہ نکاح جو بغیر ولی مجاز ( باپ بھائی یا چچا وغیرہ) کے ہوا۔ کیا وہ نکاح قرآن و سنت کی روشنی میں فاسد ٹھہرا یا جائز ؟ ۲۔ اگر نکاح فاسد ٹھہرا تو کیا نکاح ثانی بغیر طلاق کے بھی ہو سکتا تھا؟ اور کتنے عرصے بعد؟ ۳ اب طلاق ہو گئی ہے تو کتنی عدت گزارنی ہوگی؟ تین مہینے یا تین ماہ سے کم عرصے کے لیے بھی ہو سکتی ہے؟ ( سائل ڈاکٹر عبید الرحمن چوہدری۔ گلستان کالونی مصطفی آباد لاہور) (تنظیم اہل حدیث : ۱۱ جمادی الثانی ۱۴۱۲ھ) جواب :(۱) مذکورہ نکاح چونکہ بلا اجازت ولی ہوا ہے جبکہ ولی کا وجود نکاح میں شرط ہے لہٰذا باطل ہے۔ حدیث میں ہے: (( أَیُّمَا امْرَأَۃٍ نَکَحَتْ بِغَیْرِ إِذْنِ وَلِیِّہَا فَنِکَاحُہَا بَاطِلٌ، فَنِکَاحُہَا بَاطِلٌ، فَنِکَاحُہَا بَاطِلٌ ۔)) [1] پھر طلاق بھی غیر محل ناقابلِ اعتبار فعل ہے۔ واضح ہو کہ شریعت میں ثیب اور غیر ثیب( بیوہ اور غیر بیوہ) کا حکم ایک جیساہے یعنی ولی عادل کی اجازت کے بغیر نکاح منعقد نہیں ہوتا۔ اندریں صورت عورت استبراء رحم( ایک حیض ) کے بعد کسی صالح انسان سے باجازت ولی نکاح کر سکتی ہے۔ لڑکی کو اغواء کرنے کے بعد بغیر ولی کے نکاح کرنا: سوال : میرا لڑکا شادی شدہ ہے جس کی پانچ لڑکیاں اورایک لڑکا موجود ہے۔ اُس نے ایک کنواری لڑکی جو اس کے اسکول میں استانی لگی ہوئی ہے کے ساتھ اغوا کے بعد نکاح کرلیا ہے۔ نکاح کے وقت لڑکے اور لڑکی کی جانب سے کوئی حقیقی ولی موجود نہیں تھا۔ اس نکاح کی قرآن و حدیث کی روشنی میں کیا حیثیت ہے ؟ نیز نکاح خواں، فرضی ولیوں اور گواہوں کے متعلق شریعت مطہرہ میں کیا حکم ہے ؟(سائل) (۵ مارچ ۲۰۰۴ء) جواب : حدیث میں ہے: ’لَا نِکَاحَ اِلَّا بِوَلِیٍّ‘[2]
Flag Counter