Maktaba Wahhabi

73 - 382
ساری خیر وبرکت نکاح کو سادہ رکھنے میں ہے۔ اللہ ربّ العزت جملہ مسلمانوں کو اس بات کی توفیق عطا فرمائے، آمین۔ امام نووی فرماتے ہیں زفاف وخلوت دن اور رات دونوں وقتوں میں درست ہے کوئی خصوصیت رات ہی کی نہیں۔ شوہر کو چاہیے کہ صحبت سے پہلے مہر کاکچھ نہ کچھ حصہ عورت کو دے دے۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فاطمہ رضی اللہ عنہا کے ساتھ نکاح کیا تو صحبت کا وقت آنے سے پہلے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب تک علی رضی اللہ عنہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کو کچھ دے نہ دیں صحبت نہ کریں۔ چناں چہ انھوں نے زرہ دے کر خلوت کی۔[1] پھر مستحب یہ ہے کہ دلہن کی آمد پر شوہر اس کو پینا وغیرہ پیش کرے اور بیوی کی پیشانی پر ہاتھ رکھ کر خیر وبرکت کی دعا کرے اور ان کے لیے مستحب یہ ہے کہ دونوں دو رکعتیں اکٹھی ادا کریں اور مجامعت کے موقعہ پر مسنون دعا پڑھیں۔ وطی قبل میں کرنی چاہیے دبر میں حرام ہے۔ پھر دو جماعوں کے درمیان وضو کرنا مستحب ہے اور غسل کرنا افضل ہے۔ زوجین کے لیے اکٹھے غسل کرنا بھی جائز ہے۔ جنبی کو چاہیے کہ سونے س ے پہلے وضو کرلے لیکن غسل کرنا افضل ہے۔ بیوی سے وطی حالت طہر میں کرنی چاہیے ماہواری کی حالت میں حرام ہے۔ نکاح سے مقصود عفت وعصمت ہونی چاہیے۔ پھر صبح کے وقت عزیز واقارب آئیں اور اس کے لیے خیر وبرکت کی دعا کریں۔ پھر حیثیت کے مطابق ولیمہ کرنا چاہیے۔(آدابِ زفاف، علامہ البانی) نیز شادی کی تکمیل شرعی احکام کے مطابق ہونی چاہیے تاہم طبعی خوشی کی بنا پر کبھی کوئی کام کرلیا جائے تو کوئی حرج نہیں بشرطیکہ شرعی احکام سے متعارض نہ ہو۔ سوالات کے جوابات بالاختصار ملاحظہ فرمائیں: 1… شریعت میں اس کا کوئی اصل نہیں ہاں البتہ طبعی خوشی کی بنا پر کوئی حرج نہیں۔ 2… منگیتر کو چاندی کی انگوٹھی پہنانے میں حرج نہیں تاہم سونے کی انگوٹھی حرام ہے۔ 3… شادی کا دن مقرر کرنے میں کوئی حرج نہیں کیوں کہ یہ ضروریات دین سے ہے۔ جب کہ چالیسویں کا شریعت میں کوئی اصل نہیں۔ 4… طبعی خوشی کی بناء پر کوئی حرج نہیں۔ 5… ان رسوم سے اجتناب کرنا اولیٰ ہے۔ 6… الفت کا اظہار ہونا چاہیے جیسے پہلے ذکر ہوا ہے۔
Flag Counter