Maktaba Wahhabi

182 - 382
منقول از پندرہ روزہ ’’صحیفہ اہل حدیث‘‘ کراچی۔،ص:۱۹ کالم:۱،جلد:۶۴،شمارہ:۶۔۱۶ ربیع الاوّل ۱۴۰۳ھ، مطابق ۳ جنوری۱۹۸۳ء۔ (عبدالرحیم عارف۔ اوکاڑہ) (۱۹ مارچ ۱۹۹۹ء) جواب :بحوالہ’’صحیفہ اہل حدیث کراچی‘‘ مشارٌ الیہ حدیث سخت ضعیف ہے۔بلکہ وضعی( من گھڑت) روایت ہے کیوں کہ اس کی سند میں راوی عاصم بن سلیمان کے بارے میں ابن عدی فرماتے ہیں ۔ من گھڑت احادیث بیان کرتا تھا۔ نسائی نے کہا :’’متروک ہے۔‘‘ اور دارقطنی نے کہا:’’ کذّاب ہے۔‘‘ پھر بذاتِ خود ’’مصنف‘‘ فرماتے ہیں: رَمَاہُ عَمْرَو بْنُ عَلَیٍّ بِالْکَذِبِ وَ نَسَبَہُ اِلَٰی وَضْعِ الْحَدِیْثِ ۔ ’’ عمرو بن علی نے اس کو جھوٹا قرار دیا ہے اور کہا کہ یہ من گھڑت روایات بیان کرتا تھا۔‘‘ مزید تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو: ’’میزان الاعتدال‘‘ (۲/۳۵۰۔۳۵۱) نکاح کے روز والدین کے ساتھ بارات کے طور پر عزیز و اقارب کو لے کر جانا؟ سوال : نکاح کے روز والدین کے علاوہ اقارب( یعنی بارات) کو ساتھ لے کر جانا کیسا ہے ؟(سائل) (۲۱ جون ۲۰۰۲ء) جواب : نکاح کے روز چند عزیز و اقارب لڑکی والوں کے گھر چلے جائیں تو کوئی حرج نہیں لیکن بارات کی رسم سے بچنا چاہیے۔ بارات میں تین سے زیادہ آدمی شرعاً جاسکتے ہیں؟ سوال :کیا بارات میں تین سے زیادہ آدمی شرعاً جاسکتے ہیں؟(سائل محمد نعیم شہزاد شالیمار کالج لاہور) (۷ جنوری ۱۹۹۴ء) جواب :بارات میں شرکت کرنے والوں کا شرع میں کوئی عدد متعین نہیں۔ حسب ضرورت افراد دلہن کو لینے کے لیے جا سکتے ہیں۔ بارات کے لیے کھانا تیار کرنا؟ سوال :کیا لڑکی والے بارات کے لیے کھانا وغیرہ پکا سکتے ہیں؟(سائل محمد نعیم شہزاد شالیمار کالج لاہور) (۷ جنوری ۱۹۹۴ء) جواب :لڑکی والوں کا بارات کے لیے کھانا تیار کرنا محض ضیافتِ عامہ کی قبیل سے ہے۔ اس کا نفسِ نکاح سے کوئی تعلق نہیں۔ شیخی محدث روپڑی رحمہ اللہ ایک سوال کے جواب میں رقمطراز ہیں: ’’نجاشی نے ام حبیبہ کا نکاح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ پڑھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بھیج دیا۔‘‘[1] اس سے معلوم ہوا بارات ضروری نہیں لیکن کسی روایت میں ممانعت بھی وارد نہیں ہے۔ اس لیے اگر لڑکے
Flag Counter